جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی مدت ملازمت مکمل کرلی اور اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھالیا اور وعدہ کیا کہ وہ حلف کی پاسداری کریں گے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ پورا پاکستانی سماج مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس کو ایک مسیحا کی ضرورت ہے جو پاکستانی سماج کو اس دلدل سے نکالے۔ اس میں کسی حد تک کردار اعلیٰ ترین عدالتوں کا ہوسکتا ہے جو لوگوں کو راحت فراہم کریں اور ان سے زیادتی کا ازالہ کریں۔ نئے چیف جسٹس کی مدت ملازمت انتہائی کم ہے۔ اتنی کم مدت میں عوام الناس کے توقعات پر پورا اترنا ایک مشکل بات ہوگی۔ البتہ نئے سربراہ کچھ روایات ضرور قائم کریں گے ،ظلم اور زیادتی کرنے والوں کو کبھی بھی نہیں بخشا جائے گا۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوگا۔ اس میں سب سے پہلے مگر مچھوں کو پھانسا جائے، ان کی خلاصی نہیں ہوگی۔ یہی روایات صوبائی عدالتوں میں بھی قائم کی جائیں اور ماتحت عدالتوں میں کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ سب سے اہم ترین مسئلہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ اس کی وجہ سے پنجاب میں لاکھوں کی تعداد میں ارب پتی بن گئے اور بلوچستان میں غربت میں اضافہ ہوگیا۔ پہلے بلوچستان میں65فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے رہتے تھے اور اب 85فیصد افراد۔ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ناروا اور امتیازی سلوک رکھا گیا، اس کا اندازہ لاپتہ افراد کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اتنی کم مدت میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو راحت نہیں پہنچایا جاسکتا۔ البتہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کی صورت میں سرکاری اہلکار اپنے ملک کے شہریوں کو اغواء نہ کرسکیں، ان کو غیر قانونی حراست میں نہ رکھ سکیں۔ ایسے تمام سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے ان پر لوگوں کو اغواء کرنے، قید میں تشدد کرنے کے الزام میں ان کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ ان تمام اہلکاروں کو کسی بھی قیمت پر معاف نہ کیا جائے، ان کو سزائیں ضرور دی جائیں تاکہ آئندہ کسی بھی پاکستانی شہری کو اغواء کرکے ان کو غیر قانونی حراست اور غیر قانونی جیل میں نہ رکھا جا سکے۔ کارروائی ان افسران کے خلاف بھی کی جائے جن کے احکامات پر لوگوں کو اغواء کیا جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ یہ روایات اپناتی ہے اور ذمہ داروں کو سزائیں دی جاتی ہیں تو یہ ملک اور قوم کی بڑی خدمت ہوگی۔ کوئٹہ سے کراچی تک لانگ مارچ نے پاکستانی سول سوسائٹی کی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ حکومتی اہلکار اس لانگ مارچ کے اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ دولت کہاں پڑی ہے اور ملکی دولت کو کس طرح سے لوٹا جائے۔ بنیادی انسانی حقوق اور انسانی روایات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ان سب باتوں کو فضول سمجھتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ انسانی حقوق کی پامالی، خصوصی طور پر سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں، کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ نے ان لواحقین کا مداوا نہیں کیا تو گمان یہ ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی بنیاد پر بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ بلوچ بیرونی دنیا میں عالمی ضمیر کو برابر اور مسلسل جھنجھوڑ رہے ہیں۔ کسی دن وہ بین الاقوامی ٹریبونل بھی پہنچ جائیں گے جہاں پر پاکستان کی سبکی ہوگی۔ فی الوقت پاکستان کا دنیا میں کوئی دوست نہیں ہر ملک کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہ ہماری وجہ سے دنیا بھر میں بدنامی مول نہیں لے سکتے۔ اس لئے سمجھ داری اسی میں ہے کہ سب سے پہلے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔