|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2017

بڑی مدت کے بعد لیاری میں ایونٹ کے حوالے سے کوئی دعوت نامہ ملا تھا دل میں حسرت بھی تھی اور نہ جانے کی ہچکچاہٹ بھی۔۔دل میں بار بار خیال آرہا تھا یار اتنے عرصے بعد ایک ایونٹ اور وقت شام سات بجے یعنی کے آرٹس کونسل جانے کیلئے ٹریفک جام کا امتحان پاس کرنے کیلئے آدھ سے ایک گھنٹے کا صبر بھی درکار ہوگا۔

خیر بسم اللہ کرکے بائیک اسٹارٹ کی اور لیاری سے براستہ سالار کمپاؤنڈچل دئیے۔ آرٹس کونسل کی جانب۔۔۔خدا خدا کرکے امن اخبار والی گلی جلد پہنچ تو گئے مگر وہاں ٹریفک جام کا امتحان شروع ہوگیا شام کے سوا سات بج رہے ہیں اور ٹریفک بدستورجام ہے اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے شام کے سات پینتیس ہوچکے ہیں ۔

بالآخر بائیک نکال کر سندھ سیکرٹریٹ کی جانب جانے میں کامیابی مل ہی گئی ابھی خوشی محسوس ہی ہورہی تھی کہ ایک رکشے میں جس فلم کی رونمائی دیکھنے جارہے ہیں اس کے کرتا دھرتااحسان شاہ دکھائی دئیے تو جان میں جان آئی کہ چلو یہ بھی میری طرح رش میں پھنس گئے تھے۔

آرٹس کونسل کے گیٹ پر کالی پینٹ اور کالے کوٹ پہنے نوجوان آنیو الے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے جمع تھے لوگوں کی بڑی تعداد آڈیٹوریم کے باہر جمع ہوچکی تھی آڈیٹوریم کے استقبالیے پر کرسی لگائی بانک پروین ناز موجود تھی جو آنے والے مہمانوں سے دعوت نامے پر درج ایک خاص خانہ پْر کروانے میں مصروف تھیں آگے بڑھ کر ان کو سلام کیا اور اپنا تعارف کروانا چاہا تو ان کی زبان سے یہ بات سن کر خوشی ہوئی کیا ہوگیا میں آپ کو اچھی سے جانتی ہوں۔۔۔

خیر خانہ پر کرکے گیٹ کے اندر داخل ہوگئے تو وہاں آڈیٹوریم جانے والے رستے پر بہت سارے دوست کچھ سیاسی گفتگو میں مصروف تھے معذرت کے ساتھ سیاسی گفتگو سے اجتناب کا کہتے ہوئے اندر داخل ہونے لگا تو عادل لاہوتی صاحب نے کہا سر آپ یہاں کہاں سے جارہے ہیں آپ آئیں ریزو سیٹ پربیٹھئے پہلے تو میں نے منع کیا لیکن لاہوتی کے بے حد اصرار پروہاں جانے پر مجبور یوں آڈیٹوریم میں داخل ہوتے ہی تیسری رو میں بائیں جانب کی نشستوں پر اکیلے براجمان ہوا۔۔چار سال بعد کسی ایسے ایونٹ میں شرکت پر جہاں کچھ ایکسائٹمنٹ تھی تو وہیں نظریں کچھ پرانے دوستوں کی متلاشی بھی۔۔۔یہ ایونٹ اپنے نام کی طرح خوبصورت تھا

خود کو اتنے عرصے تک ایسی سرگرمیوں سے دور رکھ کر دل افسردہ بھی تھا تو اندر سے خوشی بھی محسوس ہورہی تھی ہال کے اندر چاروں جانب نظریں دوڑانی شروع کردیں کہ شاید کوئی پرانا دوست نظر آجائے کچھ ہی دیر گزرے تھے کہ وش نیوز کے ساتھی اختر دانش صاحب کو دیکھ دل خوش ہوا چلیں کوئی تو ملا مطلب کا ،،،دور سے ہی ان کو اشارے کئے جب وہ میری جانب متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ان کے برابر میں ہی فلم کے ایک کردار اور ان کے برابر میں پرائمری اسکول کے کلاس فیلو راشد بلوچ بھی تشریف فرما ہیں۔

پروگرام شروع ہونے میں تاخیر ہونے کے سبب کچھ بوریت سی ہونے لگی تو نشست سے اٹھ کر اختر دانش کی جانب چل دیا تو جو اسٹیج کے دائیں جانب تیسری رو میں موجود تھے علیک سلیک کے بعد کچھ یہاں وہاں کی بات چلی۔۔پھر پچھلی سیٹوں پر نظریں دوڑانا شروع کیں تو سارے پرانے دوستی کے کردار نظر آنے شروع ہوئے اب کچھ اچھا اچھا محسوس لگنے لگا اختر دانش سے یہاں وہاں کی بات ہی چل رہی تھی کہ اسٹیج پر دونوجوان ایک رنگ کی پینٹ ایک طرح کے شوز اور شرٹ پہنے نظر آئے اور تقریب کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا۔۔

پہلے تو دونوں نوجوانوں کی باتوں میں کچھ لفظوں کا فقدان محسوس ہونے لگا اور بولنے میں جلد بازی کی وجہ سے جملے کی بے روانی بھی لیکن لب و لہجے میں لیاری کا تاثر پہلے کی طرح نمایاں نہیں تھا یہی اس پروگرام کی متاثر کن ابتدا تھی۔تقریب کے حاضرین دونوں نوجوانوں کی باتیں سننے میں مگن تھے اور ہم دونوں کی باتوں میں صرف لیاری کے سحر میں گم۔

معمول کی طرح ان کا بھی غیر لیارین سے سوال سن کر فخر سا محسوس ہوا کہ اس طرح کے ایونٹ میں ہی لیاری کا لوہا منوایا جاسکتا ہے اور اس میں شرکت میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ غیر لیارین لیاری کو کیسا دیکھتے ہیں یہاں لیاری کا نام سننے پر ان کے ذہن میں کیا آتا ہے کسی نے جواب میں کہا موسیقی ،کسی نے لیوا کہا کسی نے دہشت تو کوئی گینگ وار اور قاتل و غارت گری سے لیاری کو جوڑنے لگا۔
پہلی بلوچ خاتون نازین بلوچ کی ڈائرکیشن میں بننے والی مختصر دورانیہ کی فلم ’’لیاری اے پریزن ود آؤٹ وال‘‘ ایک ایسی کہانی جو شاید ہر ایک لیارین کی کہانی ہے ۔ اس فلم کی تقریب رونمائی میں جب مہمانوں کے نام سامنے آئے تو ان میں سر رمضان صاحب اور سرنادر شاہ عادل صاحب کے نام سن کر بے تابی سے ہونے لگی کہ کب ان کی باتیں سننے کو ملیں گی بالآخر سر نادر شاہ عادل صاحب کو نشستوں پر کھڑے حاضرین نے تالیوں کی گونج میں استقبال کیا ،،سر نادر شاہ عادل کی سحر انگیز گفتگو نے ماحول پر نیا سحر طاری کردیا۔۔۔
سر نادر شاہ عادل کے لیاری کے مختصر تعارف میں جیسے صدیاں بیان کی جارہی تھیں لفظ بہ لفظ حرف بہ حرف لیاری کا اصل چہرہ نظر آرہا تھا ،،سر نادر شاہ عادل کے اختتامی جملوں میں جہاں کچھ ماضی کی یادیں تھیں تو وہیں نوجوان نسل کیلئے انہوں نے آپسی اختلافات بھلاکردنیا میں صرف لیاری کے اصل چہرے کو دکھانے پر زور دیا ،،سر نادر شاہ عادل کو تالیوں کی گونج میں اسٹیج سے رخصت کیا گیا۔

دونوں نوجوان اسٹیج پر نمودار ہوئے اور حاضرین کو محفل میں موسیقی کی آمد کی نوید سنائی اوروحید نور صاحب کی شاعری پر مبنی فلم کے ٹائٹل سانگ ’’یہ بستی ہے لیاری‘‘ گانے کیلئے اسٹیج کا پردہ کھلا اور موسیقی کے ساز و سامان کے ساتھ گلوکار مصطفیٰ،، گٹار پکڑے کامران بلوچ ،مزمل اور ڈرم پر بیھٹے ساتھیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے اور گانا شروع کردیا ۔

لائٹیں بند ہوتے ہی ہال میں عجیب سا سماں بندھ گیا ،ہر ایک گلوکار کے ساتھ ساتھ گنگنانے پر مجبور ہوگیا اس پورے گانے میں شاعر نے لیاری کی پوری کہانی بیان کردی ۔ گانے کے بعد حاضرین محفل کی جانب سے ایک بار پھر گانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو نوجوان میزبانوں نے مصطفیٰ کو سولو پرگانا گانے کا کہا جس کے بعد ایک مرتبہ پھر حاضرین بستی ہے لیاری پر جھوم اٹھے۔۔

پھر آخر وہ وقت آن پہنچا کہ جب فلم کی باقاعدہ اسکریننگ کی تقریب شروع ہوئی اور پردے پر بچے کے رونے کی آواز کے ساتھ ہی پرانے دوست پرانے رقیب ہمارے دلعزیز ساتھی عین رے گمنام نمودار ہوئے جو اس فلم میں مستوک کا ایک یاد گار کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس فلم کی کہانی لیاری کی وہ کہانی ہے جو شایدنوے کی دہائی میں لیاری کے ہر تیسرے بلوچ گھر کی کہانی تھی ۔

اس کہانی میں صرف ایک خاندان کی کہانی ہی نہیں بلکہ پورے لیاری کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس میں غربت، سرکاری نوکری ،بے روزگاری،کینسر جیسی مہلک بیماری، فٹبال ،موسیقی ،دھتکار،سیاست ، جرم اورنوجوانی کی موت کو ایک بڑے عمدہ اوخوبصورت انداز میں نازین بلوچ کی جانب سے فلمایا گیا ہے جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔

 

مستوک ،کلیم ،بنڈ ،فٹبال ،بیماری اور موت کے گرد گھومتی یہ داستان لیاری کے حقائق سے لاعلم لوگوں کیلئے جہاں یہ ایک بہت بڑا اور عمدہ سبق ہے بلکہ یہ لیاری میں رہنے والے نوجوان نسل کیلئے آگے آنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے کہ وہ اپنی مثبت سرگرمیوں کو منظر عام پر لاکر لیاری کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ،،بقول ڈائریکٹر نازین بلوچ کے کہ لیاری ہمارا گھر ہے اور اس گھر کو دنیا کے سامنے ہم کس طرح پیش کرتے ہیں یہ ہمیں ہی سوچنا ہوگا۔