|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2018

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ پیر کو پانچویں دن بھی جاری ہے اور ان میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دس تک پہنچ گئی ہے۔

تازہ ترین ہلاکتیں اتوار کی شب صوبہ خوزستان کے شہر ایذہ میں ہوئیں جہاں دو افراد گولیاں لگنے سے مارے گئے۔

ایذہ سے ایرانی پارلیمان نے رکن ہدایت‌ الله خادمی نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ ان ہلاکتوں کا ذمہ دار مظاہرین تھے یا پولیس۔

اس سے قبل چار افراد مغربی صوبے لورستان کے شہر دورود میں مارے گئے تھے۔ بقیہ چار ہلاکتوں کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

صدر حسن روحانی کے خطاب کے بعد بھی اتوار کی شب ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ تہران کے علاوہ کرمان شاہ، خرم آباد، شاہین شہر اور زنجان میں بھی جلوس نکالے گئے۔

اپنے خطاب میں صدر روحانی نے کہا تھا کہ ایرانی عوام حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے آزاد ہیں لیکن سکیورٹی کو خطرے میں نہیں ڈالا جائے۔ انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ کچھ معاشی مسائل ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے لیکن ساتھ ہی متنبہ بھی کیا کہ پرتشدد کارروائیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کی شب تہران کے میدانِ انقلاب میں ایک مظاہرے کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور آبی توپ استعمال کی۔

ان مظاہروں کا آغاز جمعرات کو ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد سے ہوا تھا۔ ایران میں عوام کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور کرپشن کے خلاف ہونے والے یہ احتجاج سنہ 2009 میں اصلاحات کے حق میں ہونے والی ریلی کے بعد سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے۔

ان مظاہروں کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ ایرانی عوام میں بالآخر عقل آ رہی ہے کہ کیسے ان کی دولت کو لوٹا جا رہا ہے اور دہشت گردی پر خرچ کی جا رہی ہے۔

ایرانی صدر نے کابینہ کے اجلاس سے اپنے خطاب میں میں امریکی صدر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’امریکہ میں یہ شخص جو اب ہماری عوام کے ساتھ ہمدردی دکھا رہا ہے یہ بھول گیا ہے کہ اس نے چند ماہ قبل ایرانی عوام کو دہشت گرد کہا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا ’یہ شخص جو اوپر سے نیچے تک ایرانی عوام کا دشمن ہے اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایرانی عوام سے ہمدردی کرے۔‘

دوسری جانب ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد کو خبردار کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین سے ’سختی سے نمٹا‘ جائے گا۔

ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا شمار بااثر فوج میں ہوتا ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے تحفظ کے لیے ملک کے رہبرِ اعلیٰ کے ساتھ اُن کے گہرے روابط ہیں۔