محترمی ومکرمی جناب انور ساجدی صاحب ومحترمی ومکرمی صدیق بلوچ صاحب
آج آپ کے موقراخبارمیں پنجاب یونیورسٹی کے حالیہ واقعے پر ادارتی نوٹ زیر مطالعہ رہا ۔میں آزادی صحافت کا قائل اور آپ کی شخصیت وموقرروزنامے کامعترف ہوں۔
ہمیں معاشرتی طور پر بہت سارے مشکلات وچیلنجزدرپیش ہیں جن میں تنگ نظری ونفرت کی آگ پر مسلسل تیل ڈالنابھی شامل ہیں ۔طلبہ سیاست اور پاکستان کے معاشرتی مسائل ،ایک سنجیدہ اور پرا ثرمکالمے کا وسیع موضوع ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا حالیہ واقعہ جس طرح آپ کے موقر جریدے اور روزمے میں ادارتی نوٹ سے عیاں ہیں کہ واقعات کے تسلسل میں رونما ہوا ۔سالانہ فیسٹیول کی تیاریاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان کر رہے تھے جس پر بدقسمتی سے پشتون بلوچ کونسل کے طلبہ اوران کے ساتھ شہر لاہور سے آؤٹ سائیڈرزنے حملہ کیا ۔
مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ لکھناپڑرہا ہے کہ روزنامہ انتخاب کے ادارتی نوٹ لکھنے والے معززصحافی نے زحمت گوارانہیں کیا کہ یہ معلوم کرلیتے کہ فیسٹیول کس کا تھا اور کون نوجوان پروگرام کی تیاری کر رہے تھے میں آپ کے الفاظ مستعار،قرض لیکر اپنی مدعا/گزارش واضح کرتاہوں ’’گزشتہ دنوں جب یونیورسٹی میں سالانہ فیسٹیول کی تیاریاں کی جارہی تھیں تواسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے افرادنے بلوچ اور پشتون طلبہ پر حملہ کرکے انہیں زودوکوب کیا ‘‘ واضح رہے کہ فیسٹیول کی تیاری کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کارکنان تھے اور حملہ آوربلوچستان کے کوٹے پرلاہور میں مہمان طالب علم اور ان کے دوست آوٹ سائیڈرشرپسندغیر طالب علم عناصرتھے۔
مجھے حیرت اور افسوس ہے کہ صحافتی بددیانتی اور تحقیق و کنفرم کرنے کا یہ کیا اندازہے کہ اپنے ادارئیے میں انتہا پسندی جھوٹ اور تعصب شامل کرکے اپنے قارئین کو حقائق سے بے خبر رکھیں ۔
یہی المیہ صوبے کے معتبر سیاسی قوم پرست سیاستدانوں کا ہیں کہ بغیر تحقیق وتصدیق کے طلبہ کی لڑائی میں کود پڑے ہیں اور مسلسل حقائق ودیانتداری سے کنارہ کشی کرکے اپنے بلوچستان کے معصوم طلبہ کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں ۔گرفتار طلبہ میں 58طلبہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ریگولر طالب علم ہیں صحافتی دیانت داری اور بڑے پن کا تقاضا تھا کہ آپ کے اداریئے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے گرفتارشدگان کیلئے بھی ہمدردی کے الفاظ ہوتے۔
روزنامہ آزادی کی طویل اداریئے میں بھی اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی پر اپنے ذہنی ونظریاتی بغض ونفرت کاسارابخار نکالاگیا ہے ۔کراچی میں جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت طلبہ کے ہزاروں مظلوم وزخمی کارکنان اور سینکڑوں مقتولین وشہداء کیلئے ایک لفظ انصاف پسندی اور حمایت کے بجائے یہ صحافتی فتویٰ لگایا گیا کہ وہ ضیاء الحق کے کہنے پر مسلمان ہونے سے مہاجر بن کر ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے۔ یہ انتہائی بھونڈاالزام اور صریحاً ظلم وانتہا پسندی ہے ۔اسلامی جمعیت طلبہ ،جماعت اسلامی کی حمایت کے باوجود ضیاء الحق مرحوم کی آمریت کے شدید خلاف تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ ومرکزی صدر جناب معراج الدین خان اور سینکڑوں کارکنان کو کوڑے اور قید وبند کا سامنا کرنا پڑا۔
قصہ مختصرمجھے ایک سیاسی کارکن ،سابقہ طالب علم لیڈر اورجماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کے طور پر آپ کے دونوں باتوں سے اتفاق ہے کہ ’’بلوچستان کے طالب علم اپنے ملک یا دنیا کے کسی کونے میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریگا کیونکہ انہیں بحرحال پڑھنا ہے اچھا انسان بننا ہے اور اپنی سرزمین کی خدمت کرنا ہے ‘‘(روزنامہ آزادی 27جنوری 2018ء)
کاش اس المناک واقعے کے بعد صوبے کے اخبارات اور سوشل میڈیا پر چارپانچ دنوں سے حقائق سے روگردانی کرکے دروغ گوئی وافسانے شائع کرانے کے بجائے پشتونخواہ میپ ،اے این پی ،بی این پی اور دیگر نادان بے خبر دوست نفرت نہیں پھیلاتے اور نہ اشتعال کی آگ پر تیل ڈالنے کاکام کرتے ۔
میری تجویز ودرخواست ہے کہ جناب انورساجدی صاحب اورجناب صدیق بلوچ صاحب پیرانہ سالی اور انتہائی معتبر وسینئر ہونے کے باعث اپنی شخصیت وقلم اور اثروسوخ کو جوڑنے ،مکالمہ کرنے اور افہام وتفہیم پر صرف کرے ۔جماعت اسلامی آپ سے اختلاف کے باوجوداعتماد کرتی ہے۔ یہی اعتماد، نیک خواہش ہماری گلہ کے باوجود عثمان کاکڑ،ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،،لشکری رئیسانی اور اصغرخان اچکزئی سے ہے۔ جناب حاصل خان بزنجو،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،سرفرازبگٹی اور لیاقت بلوچ کا تعاون و مثبت اعتماد ہمیں حاصل ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان آپ دونوں بزرگوں کے توسط سے مطالبہ کرتی ہے کہ
1۔گرفتارشدگان میں سے تمام ریگولرطلبہ دونوں فریقین کے رہاکیا جائے۔
2۔یونیورسٹی اوپن کرکے تعلیمی تسلسل کو بحال کیاجائے ۔
3۔اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان پر حملہ آورگروہ اورفیسٹیول کے نقصانات کا ازالہ ،عدالت وانتقام کے بجائے معتبربااعتماد ثالث کریں ۔
4۔اسلامی جمعیت طلبہ اور بلوچستان کے پشتون بلوچ طلبہ کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے ضابطہ اخلاق تشکیل دی جائے اور پرامن وآبرومندانہ ماحول میں سب کو پڑھنے اور اپنے نظریات وخیالات کے مطابق جینے اور حصول تعلیم کا موقع دیا جائے۔
5۔طلبہ یونین کے انتخابات کیے جائیں ۔
6۔بلوچستان کے قوم پرستوں خاص کر پشتونخواہ میپ اور بی این پی مینگل کے جارہانہ اور گمراہ کن بیانات وجماعت اسلامی کے اوپر بے جا الزامات ،سیاسی واخلاقی حدود کے پامال ہونے کانوٹس جناب محمودخان اچکزئی اور جناب سردار اختر جان مینگل لے لیں ۔
مجھے امید ہے کہ آپ دونوں حضرات اپنے ادارے کے ادارتی صفحے پر میری گزارشات شائع فرمائیں گے اوراس متنازعہ مسئلہ کے حل کیلئے مثبت کردار اد اکریں گے۔
نوٹ : ادارہ کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں