اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے نو ماہ بعد دنیاکے نقشے پر ایک اور ملک ظاہر ہوا۔یہ ملک دنیا کی واحد یہودی ریاست اسرائیل تھا۔ دونوں ملک مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئے۔
دونوں ملکوں کے عوام نے اپنے ملک کے قیام کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔دونوں ریاستوں کے جنم کے وقت خون کی ندیاں بہیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے جبکہ اسرائیل کے قیام سے پہلے یورپ میں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام ہوا۔
سنہ 1947 میں برطانیہ نے ہندوستان پر سے اپنا کنٹرول ختم کر دیا اور دو علیحدہ ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہندومسلم اختلافات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق اس تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ ہندو اور سکھ ہندوستان گئے اور مسلمان پاکستان آئے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ملین افراد اس تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں مارے گئے۔
دی لیگ آف نیشن نے برطانیہ کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ٹرانس جورڈن اور فلسطین کو کنٹرول کرے۔ 1948 کو فلسطین اور ٹرانس جرڈن کی جغرافیائی تقسیم ہوئی اور اسرائیل وجود میں آگیا۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کی وجہ سے فلسطین دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اسرائیل میں یہودیوں کی بڑی تعداد یورپ سے دربدر ہونے والے یہودیوں کی تھی اور بعد میں مزید 8 لاکھ یہودیوں نے نقل مکانی کی جنہیں مختلف عرب ممالک نے زبردستی بے دخل کردیا۔
جنرل محمد ضیا الحق نے ایک دفعہ کہا تھا کہ:’’پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے 150 اگر اسرائیل سے یہودیت نکال دی جائے تو یہ ریاست تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے گرجائے اور اسی طرح اگر پاکستان سے اسلام کو نکال دیا جائے او ر اسے سکیولر بنایا جائے تو یہ بھی بہت جلد ختم ہوجائے گا۔‘‘اسی نظریہ کی بنیاد پر جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھارکھے تھے۔
دونوں ملکو ں میں قدر مشترک مذہبی نظریہ ہے، دونوں ملکوں کے عوام میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر مذہب رچا بسا ہوا ہے حالانکہ اسرائیل کی قوم سیکولر ہے مگر جب بات یہودیت کی آتی ہے تو وہ قوم یک مشت بن جاتی ہے۔۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں لیکن دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی دھمکیاں نہیں دیں۔عزرائیل برنیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پہلی مسلمان ایٹمی قوت ہے جس نے کبھی اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکی نہیں دی یا وہاں دہشت گردی کے لیے کسی کی حمایت کی ہو۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اسرائیل کی مدد طلب کی کہ وہ واشنگٹن پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے اور ہندوستان پر دباؤ ڈالے۔ اس طرح اس خطہ کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ ختم کی جائے۔ پاکستان نے اسرائیل کو یقین دہانی کرائی کہ وہ عرب اسرائیل جھگڑے میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔
پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن بہت سے مواقع پر ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ دونوں ملکوں کو قریب لایا جاسکے۔تاہم ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح کے تعلقات بھی قائم نہ ہو سکے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو ٹیلی گرام بھیجا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں لیکن جناح نے اس خدشے کے پیش نظر کوئی خاص جواب نہ دیا کہ کہیں عرب ممالک ناراض نہ ہوجائیں۔
سنہ 1952 میں امریکی سفارت کاروں نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور امریکہ میں اسرائیل کے سفیر عباعبن کے درمیان ملاقات کروائی۔ سرظفر اللہ نے عباعبن کو کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کوئی زیادہ روشن تو نہیں لیکن انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستانی حکومت کی اسرائیل کے ساتھ کوئی عداوت نہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک ایسا عنصر ہے جس پر غور کرنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں کے ماہرین، طالب علموں اور اساتذہ کے تبادلے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
اسرائیل ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکن صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب پاکستان نے عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی مدد کے لیے فوجی جوان بھی بھیجے۔ اسی طرح پاکستان اسرائیل سے کیے ہوئے وعدہ سے مکر گیا۔
ستر کی دہائی کے آخر میں جنر ل ضیاء الحق واحد حکمران تھے جو اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے کے خواہش مند تھے اور انہوں نے مختلف حوالوں سے اسرائیلی انٹیلی جنس کے ساتھ خفیہ روابط قائم کیے۔
سنہ 1970 میں جنرل ضیاء نے اُردن کی سول وار میں بطور بریگیڈئر ایک آپریشن کی قیادت کی تھی جسے بلیک ستمبر کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں ضیاء کا کردار کافی متنازعہ تھا۔ وہ سیکنڈ بریگیڈ کی کمانڈ رکر رہے تھے جس نے بلیک ستمبر میں اہم کردار ادا کیاتھا۔
یہ جنگ بنیادی طور پر اردن میں فلسطینیوں کے دو دھڑوں کے درمیان لڑی گئی تھی ایک دھڑے کو یاسرعرفات کی حمایت حاصل تھی اور دوسرے دھڑے کو اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلق سنہ 1981 سے ہی شروع ہوگیا تھا یا یوں کہیں کہ پاکستان او ر امریکی سی آئی اے نے اسرائیل کی مدد سے افغان جنگ جیتی تھی جس کو بعد میں افغان مجاہدین کے نام کردیا گیا۔
جنرل ضیا کی اجازت سے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اوراسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے درمیان خفیہ معاہدہ طے پایا اور دونوں نے اپنے دفاترواشنگٹن ڈی سی میں رکھے۔
اس معاہدے کے تحت موساد نے افغان مجاہدین کو تربیت دی اور پاکستان آرمی کو ہتھیار سپلائی کیے۔ اسرائیل نے پاکستان کے ساتھ مل کر کئی مشن مکمل کیے۔ اس جنگ میں پاکستان اور اسرائیل دونوں امریکہ کے اتحادی تھی۔
افغان جنگ میں امریکی سی آئی اے کی طرف سے افغان مجاہدین کو تربیت دینا اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے کو آپریشن سائیکلون کا نام دیا گیا۔ امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد اور پاکستانی آئی ایس آئی نے سوویت یونین کے خلاف شانہ بشانہ لڑائی لڑی۔ سوویت یونین، فلسطینی دہشت گرد تنظیموں کو سب سے زیادہ فوجی امداد دیتا تھا۔
موساد نے پی ایل او سے بھاری تعداد میں اسلحہ چھینا تھا۔ ضیاء الحق نے اسرائیل سے معاہدہ کیا اور پکڑا جانے والا روسی اسلحہ آئی ایس آئی کے ذریعے افغان مجاہدین کو دے دیا۔اور بالاخر دنیا کی تین بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں سی آئی اے، موساد اور آئی ایس آئی کے مشترکہ تعاون سے سوویت یونین کو شکست فاش نصیب ہوئی۔
سنہ 1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد اسرائیل نے پاکستان کی لیڈر شپ کی جانب ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اپنے دونوں ادوار میں اور پھر 2008 کی انتخابی مہم میں ان کا خیال تھا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں اور وہ شدت سے سوچ رہی تھیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے موساد کی خدمات حاصل کریں۔
عبرانی زبان میں نکلنے والے روزنامہ ’’ماریو‘‘ نے مزید انکشاف کیا کہ بے نظیر بھٹو نے موساد، سی آئی اے اور برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ سے کہا تھا کہ وہ جنوری 2008 میں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کی زندگی خطرے میں ہے لہذا وہ ان کی حفاظت کرے۔ بے نظیر بھٹو نے شکایت کی کہ جنرل مشرف اسے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہا اور اسے ایک آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنانا چاہ رہا ہے۔
سنہ 1999 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں ایک بار پھر بہتر تعلقات کے لیے کوششیں ہوئیں۔
اسرائیل کو ایشیاء میں ایک دوست ملک چاہیے تھا جبکہ پاکستان کے معاشی حالات خراب تھے، امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی گرم جوشی نہ تھی، جس کی وجہ ایٹمی پروگرام تھا۔
نواز شریف کے دونوں ادوار (1990 تا 1993 اور 1997 تا 1999) میں بھی تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوا۔ پاکستان کے صدر رفیق تارڑاور امریکہ میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے جمشید مارکر کی اسرائیلی صدر آئزر وائز مین اور وزیراعظم یازک رابن کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔
یہاں تک کہ ستمبر سنہ 1997 کو وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی نمائندہ صدیق الفاروق نے ایشیاء کی‘‘دی مسلم’’میگزین کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’پاکستان کا یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے’’۔
سنہ 1996 میں آٹھ پاکستانی صحافی اسرائیل گئے یہ پاکستانی صحافیوں کا پہلا باقاعدہ دورہ اسرائیل تھا تاہم اس دورے کو خفیہ رکھاگیا اس دورے کے پس پردہ ایک اہم سیاسی شخصیت تھی۔ 1997 میں ایک اسرائیلی بزنس مین یاکو نمرودی نے پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، صحت، زراعت، ٹیکنالوجی، طیاروں کے فاضل پرزہ جات اور مذہبی مقامات کی زیارتوں سے متعلق گفتگو کی۔ سنہ 1998 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اسرائیلی ہم منصب بنجمن نیتن یاہو کو خصوصی ایلچی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کر ے گا۔
سنہ 2001 میں پاکستانی حکومت نے آئی ایس آئی کے ذریعے اسرائیل کو اطلاع دی کہ خلیجی ممالک،ایران اور لیبیاایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جن کی پاکستانی سائنس دانوں نے مد د کی تھی۔ سنہ 2003 میں جنرل مشرف نے کابینہ کی میٹنگ میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ سنہ 2005 کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہوئی اور جنرل مشرف نے کہا کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی پاکستان اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔
آئی ایس آئی کے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ساتھ پیشہ وارنہ تعلقات ہیں اور دونوں باقاعدگی سے معلومات شیئر کرتی ہیں۔سنہ 2013 میں برطانیہ کے شعبہ بزنس اور سکلز نے انکشاف کیا کہ سنہ 2011 میں اسرائیل پاکستان کو برطانیہ کے راستے فوجی ساز وسامان مہیا کر تارہا ہے جس میں الیکٹرانک وار فئیر سسٹم اور جہازوں کے پرزہ جات شامل ہیں۔ تاہم پاکستان اور اسرائیل، دونوں نے اس کی تردیدکی۔
پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات صرف فوجی تعاون تک ہی محدود نہیں بلکہ کھیلوں میں بھی تعاون ہوا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹرینر اور فزیو تھراپسٹ ڈائن کیسل ایک اسرائیلی یہودی تھے جس نے اسرائیلی فوج میں تین سالہ ملازمت پوری کی تھی۔ اس سے پہلے وہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے فزیو تھراپسٹ رہ چکے تھے۔ سنہ 2015 میں اسرائیلی سائنسدان نے پاکستان اکیڈمی آف سائنس لاہور کی طرف سے منعقد کی گئی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
مختصراً یہ کہ ہر دور میں پاکستان کی سیاسی و فوجی لیڈرشپ اسرائیلی حکام سے رابطے میں رہی ہے۔ پہلے وزیر خارجہ سرظفر اللہ سے لے کر فوجی ڈکیٹیٹرز ایوب خان، جنرل یحییٰ، ضیاء الحق اور جنرل مشرف یا سویلین قیادت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سب کا کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے رابطہ رہا ہے۔یہ رابطے زیادہ تر واشنگٹن، لندن اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک، تہران، مشرقی وسطیٰ، کاراکاکس، اوٹاوہ، برسلز، روم میں ہوئے اس کے علاوہ براہ راست تل ابیب میں بھی پاکستان کے سفارت کار اسرائیلی حکام سے ملتے رہے۔
پاکستان کی طر ف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں پہلی یہ کہ مسلمان ممالک خاص کر عرب ممالک کے ساتھ یک جہتی کیونکہ مذہبی آئیڈیالوجی کا پرچار کرنے والا ملک مجبور ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو اس کے مطابق رکھے ۔
دوسرے یہ کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے عرب ممالک اس کے خلاف ہو جائیں گے اور تیسرے یہ کہ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی قوتیں بہت طاقتور ہیں جو اسرائیل سے کسی بھی تعلق پر ایک بڑے ردعمل کا موجب بن سکتی ہیں۔لیکن پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ پس پردہ تعلقات بدستور موجود ہیں۔ ہاں اگر امریکہ پر جیو ش آرگنائزیشن اور مغربی ممالک زور ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور اسرائیل انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے آپس میں تعاون کر سکتے ہیں جو دونوں ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔ اسرائیل نے زرعی شعبے خاص کر صحرائی علاقوں میں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت میں کافی ترقی کی ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی زراعت کو بہت بہتر بنا سکتا ہے۔پاکستان اسرائیل کو فروٹ، کاٹن اور قیمتی پتھر ایکسپورٹ کر سکتا ہے اور بدلے میں ہائی ٹیک ملٹری امداد لے سکتا ہے۔
پاکستان کی ریاست بھی ایک حقیقت ہے اور اسرائیل کی ریاست بھی۔اسرائیلی کبھی بھی پاکستان کا دشمن نہیں رہا۔اس نے ہمیشہ پاکستان کے متعلق نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔فلسطین ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کرنا چاہیے۔پاکستان اور اسرائیل دونوں مل کر ثالث کا رول بھی ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان فلسطینی مسئلے پر اور اسرائیل پاک انڈیا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ثالث کا رول بھی ادا کر سکتا ہے۔دونوں ملکوں کے قریب آنے سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بطور دہشت گرد دھندلائی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔
دونوں ملکوں کودہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں ملک اس سے بہتر طریقے سے نبٹ کر ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ جب ہمارے فوجی جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں کے اسرائیل کے ساتھ ذاتی تعلقات رہے ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کی با شعور عوام اس تعلق کو کھلے عام نہ صرف قبول کرے بلکہ اپنے حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالے کہ ان تعلقات کو عوامی سطح پر اجاگر کرکے ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کیا جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اپنے ملک کی خوشحالی اور کامیابی ہو۔