سفر بخیر واجہ!
لالا آپ کو تو پتہ ہے کہ بلوچستان اور اس کے احوال قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نزدیک شاید ہی کالعدم تھے جو آنے کی غلطی نہیں کرتے تھے اب بھی یہ رواج کچھ کم سہی مگر برقرار ہے.
اگر کبھی میڈیا یہ غلطی کر بھی بیٹھتا تو مذاکرہ کے لیے لاہور یا اسلام آباد سے کوئی صحافی ہوتا جو خاران کو بلوچستان کا ساحلی شہر کہتا اور بلوچستان سے کوئی ناراض سیاست دان جو کبھی ناراض اور کبھی چھوٹے بھائی کا دیا ہوا رول ادا کرتا جو کبھی بھی ہٹ نہ ہونے کے باوجود بھی بار بار نئے پارٹس کے ساتھ پیشِ خدمت کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے.
ایسے میں اپنی طویل جغرافیائی مجبوری اور غیرجانبدار صحافت کے لیے صرف بی بی سی ہی خبروں کے لیے ذریعہ تھا جسے بلوچستان کے پیر و جوان شوق اور دلچسپی کے ساتھ سنتے تھے جو کہ دوہزار اٹھارہ کے اس دور میں بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے.
سر، آپ کو پتہ ہے ایسا کوں ہے؟
مجھے لگتا ہے اس کی ایک وجہ لالا صدیق جیسے لوگوں کا تجزیہ شامل کرنا ہے.
لالا، آپ خود ایکسپریس اور آزادی سے وابستہ رہے. اس کے ساتھ شاید اور کئی اداروں سے بھی مگر میری آپ سے آشنائی آپ کی بیباک، شعوریافتہ غیرجانبدار شخصیت کے باعث ہوئی، اور ایک ایسا صحافی جس پر میں فخر کر سکوں کہ یہ میری آواز ہے.
بی بی سی کے تجزیوں سے، آواران کے زلزلے کے بعد وہاں کے حقائق ہوں یا سی پیک پر بلوچستان کے خدشات، قوم پرست سیاست دانوں کی سیاست ہو یا مزاحمت کاروں کا لائحہ عمل، پشتونوں کی علاقائی سیاست اور پشتون صوبہ ہو یا تین ملکوں میں تقسیم بلوچستان کے مسائل، معیشت کے پیچیدہ اور تاب و پیچ133 ہر موضوع پر گرفت، تحقیق اور معلومات کا آپ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے.
لالا، میری آپ سے ملاقات کبھی نہ ہوئی جو میری بدقسمتی ہے. مگر آپ کی صحافت اور بہادری نے جو خاکہ میرے تصورات میں نقش کیا اس کی بنا پر میں نے اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کو انٹر شپ کے لیے آزادی کا مشورہ دیا. کیوں کہ میں نے سنا تھا کہ اس کا ایڈیٹر صدیق بلوچ ہے.
ملاقات کے لیے جس دن میں آزادی کے دفتر پہنچا، اس دن آپ وہاں موجود نہ تھے.
لالا! آج رونے کو دل کرتا ہے، کیوں کہ بلوچستان آج بھی صحافت کے لیے وہ سرزمین ہے جس نے 1888 سے آج تک کچھ زیادہ تبدیلی نہیں دیکھی، مگر ایسے میں بھی آپ یوسف عزیز مگسی، خان صمد، مرغزانی اور ارشاد مستوئی کے کاروان میں شریک رہے.
اپنے دفتر کے سامنے سخت پہرے میں ڈرے نہیں، اخبارات پر بندش کے باوجود اپنے دفتر پر تالے نہیں لگائے اور بلوچستان جیسے ممنوعہ موضوع کی نمائندگی کرتے رہے، لکھتے رہے اور جو ملکی دانش ور کوئٹہ اور گوادر کے علاوہ بلوچستان سے ناواقف تھے، ان کے بیچھ بیٹھ کر بلوچستان کے سرمئی پہاڑوں، وادیوں اور نیلے سمندروں کے حقائق بیان کرتے رہے.
لالا! آپ نے یہ باور کرایا کہ زبان پر تالے تو لگ سکتے ہیں مگر ضمیر کا کیا کریں؟
لالا آپ نڈر تھے اور اسی بات کا ہمیں ڈر تھا. آپ ہماری زبان تھے، ہمیں بیان کرتے تھے اور آپ کو تو پتہ ہم خود سے کتنا ڈرتے ہیں.
آہ، مگر آج بے زبان بلوچستان کی ایک توار خاموش ہوگئی. مگر انگریز دور کی اذیتوں سے لے کر آج کے دردناک حقائق تک صحافت کو رکنے نہیں دیا.
لالا! مجھے پتہ ہے ارشاد مستوئی، خان صمد، صدیق عیدو ہزاروں کا کاروان لے کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں، اسی لیے اب آپ کو اجازت133.
ہم آپ کے لیے کیا جنت کی دعا کریں گے، مگر ہاں آپ سے دعاؤں کی گزارش ہے!!
لالا صدیق بلوچ: “آپ نڈر تھے، تبھی تو مجھے ڈر تھا!’’
وقتِ اشاعت : February 7 – 2018