|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2018

امریکی دانا G.H WELLS نے لکھا تھا کہ،
“وقت ایک بہتی ندی کی مانند سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور وہ خواب اْڑ جاتے ہیں یا بھلا دیے جاتے ہیں یا وہ اْڑ جاتے ہیں، جیسے صبح کے سحر میں سپنے یاد نہیں رہتے!’’

پر اس کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے سارے خواب سنبھال کے رکھے۔ جب بھی جب وہ “ڈان’’ میں اپنے خوابوں کو تحریر کی شکل دے رہا تھا۔ جب بھی وہ اپنے ہاتھوں میں اخبار دبائے کسی بس میں چڑھ جاتا اور نامعلوم سے اسٹاپوں پر اتر جاتا اور ان لوگوں سے ملتا، جن لوگوں سے کوئی نہیں ملتا۔

اس نے تب بھی اپنے سپنے اپنے ساتھ رکھے، جب لیاری ہر کسی کو اپنے پاس بْلاتا، اسے ایک ایک زوردار جھپی دیتا، پھر وہ لیاری کے عشق میں اڑ جاتا۔ وہ بھی لیاری کے عشق میں اڑتا رہا۔ پر ساتھ اپنے سپنوں کے!

اس سے وہ سپنے وہ گینگ وار بھی نہیں چھین سکا جس گینگ وار نے ماؤں سے ان کے بچے چھین لیے۔ جو گینگ وار یہ جانتے ہی نہیں کہ بچے جوان کیسے ہوتے ہیں؟!

وہ سپنوں کے ساتھ جیتا رہا۔ یہ سپنے یا تو اس کے صحافتی بیگ میں موجود ہوتے یا ان بڑی گھورتی آنکھوں میں یا اس دل میں جو دل رک گیا!

وہ دل رک گیا، جو دل درد میں دھڑکتا تھا۔ جو محسوس کرتا تھا۔ جو اتنی طاقت رکھتا تھا کہ بْرے کو بْرا کہہ سکے اور اچھے کو اچھا133 وہ دل رک گیا اور وہ بہت بھاری پتھروں کی سلوں کے نیچے چلا گیا۔

وہ دل جو محبت سے سرشار ہوا کرتا تھا۔ جو دل آنکھیں رکھتا تھا، جو دل ایک پورا انسان کا روپ تھا۔ بس ایسا بھی نہیں کہ وہ دل بس خوش ہی ہو۔ وہ رنج میں بھی رہا کرتا تھا۔ اس دل کو ملال بھی رہتا تھا۔ جب لالا صدیق کو یہ بتایا جاتا تھا کہ بلوچستان سے فلاں صاحب گْم ہوگئے ہیں یا لیاری میں گینگ وار سے فلاں صاحب مارے گئے ہیں تو وہ دل بہت ملال میں آ جاتا تھا۔ جو دل اپنے ساتھ اپنے لوگوں کے سپنے ساتھ رکھتا تھا۔ جو دل یہ چاہتا تھا کہ سب لوگ خوش رہیں، سب گھروں میں خوشیوں کے پھول کھلے رہیں وہ خوش دل! وہ اداس دل! دفن ہوگیا!

ویسے لیاری بھلے اسپورٹس کیمپلیکس کا روپ دھارے ہوئے ہو، پر سب جانتے ہیں کہ لالا صدیق بلوچ اس اسپورٹس کیمپلیکس میں بھی وہ ڈھابے والا تھا جو اپنے خواب ان نوجوانوں کو بیچا کرتا تھا جو نوجوان اپنی زندگی میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔ جو نوجوان لیاری کا اصل روپ تھے۔ جو سب کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ لیاری بندوق اور گولی کی زباں نہیں ہے، لیاری گینگ وار کی ماں نہیں ہے۔ لیاری اغوا برائے تاوان کا دیس نہیں ہے۔ لیاری بھتے کی پرچی نہیں ہے بلکہ لیاری محبت کا گیت ہے۔ لیاری کراچی کا دل ہے۔ لیاری محبت کی پہلی kiss ہے۔ لیاری گولی نہیں، لیاری لیوا ہے۔ لیاری اغوا برائے تاوان نہیں، لیاری تو وہ ماں ہے جو سب کو ملاتی ہے۔ لیاری بھتے کی پرچی نہیں، لیاری تو وہ پتا ہے جس کا سب پوچھ کر اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ لیاری خوشیوں کی وہ خوشبو ہے جسے سب اپنے تن بدن پر مَل کر چلتے ہیں۔

اور یہ سب باتیں ان نوجوانوں کو وہ صدیق بلوچ بتایا کرتا تھا جس کے پاس بس کچھ چیزیں تھیں جن میں قلم، صحافتی بیگ، جاگتی آنکھیں اور وہ دل جو سپنوں کا مسکن رہا کرتا تھا۔

اب اس کے یوں چلے جانے پر کیا رہ گیا۔۔۔
بس اداس قلم اور صحافتی بیگ!
باقی جاگتی آنکھیں سو گئیں۔ سپنوں کا مسکن دل، بھاری پتھروں کی سلوں کی نیچے دفن ہوگیا۔

وہ نوجوان جو لیاری کی گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ آج کون سا سوچتا دماغ اور سپنوں سے بھرا دل خاموش ہوگیا۔ پر وہ دانش ور جو اسے جانتے تھے، جو اسی کی طرح سوچتے تھے، لکھتے تھے اور دکھوں پر ماتم کرتے تھے۔ جو دانش ور اب اپنی ادھوری زندگی کو کتابوں میں سمیٹ رہے ہیں، وہ تو جانتے ہیں کہ کون چلا گیا۔ پر وہ جونوان بالکل بھی نہیں جانتے جو لیاری میں اپنے گھروں سے نکلتے ہیں۔گلیوں میں گھومتے ہیں، پھر بند دروازوں میں نہیں معلوم کہاں چلے جاتے ہیں؟

وہ نہیں جانتے کہ جو اب کے لیاری سے خاموش جنازہ اْٹھا ہے، وہ کس کا ہے؟ اور وہ شخص کون ہے، جس کے لیے لیاری کی دکانیں تو بند نہیں ہوئیں پر لیاری اداس ہے۔

وہ صدیق بلوچ جس نے اپنی پوری عمر صحافت کو دے دی، پھر بھی غریب رہا۔ جس نے لیاری کے درد کو بارہا لکھا۔ پر وہ لیاری کو اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں گیا۔ جس نے صحافت سے عزت بھی کمائی پر وہ پیسے کمانے سے دور رہا۔ وہ ایک نہیں پر دو اخباروں کا مالک تھا۔
وہ لیاری کو چھوڑ گیا، پھر لوٹ آیا۔ اور اْس کی واپسی پر لیاری پروین شاکر کے اس شعر سے اسے خوش آمدید کہہ رہا تھا کہ،

وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی

وہ اپنی زندگی میں بس سپنے دیکھا کرتا اور بیچا کرتا۔ اور صدیق بلوچ کے جوبن میں کیا تھا؟!

امریکی ادیب G.H WELLS کی یہ بات صدیق بلوچ کے حق میں سچی ثابت نہیں ہوتی کہ، “وقت ایک بہتی ندی کی مانند سب کچھ بہا لے جاتا ہے اور وہ اْڑ جاتے ہیں جو سپنے سحر کی ماند دلوں پر اترتے ہیں، سب بھلا دیے جاتے ہیں!’’

پر صدیق بلوچ کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔
چلتے، دھڑکتے، ڈوبتے دل رک ہی جاتے ہیں اور صدیق بلوچ کا بھی دل رک گیا۔

پر اس دل کے ساتھ صدیق بلوچ کا سانس ہی نہیں رکا، وہ سپنے بھی رک گئے، جن سپنوں کا سفر مختصر ہونے کے باوجود طویل بھی تھا۔ طویل ہونے کے باجود اتنا مختصر کہ جیسے بس کوئی یاد!

اب بہت جلد صدیق بلوچ ایک یاد بن جائے گا اور ان آنکھوں میں آنسو بن کر تیرتا رہے گا جو آنکھیں اسے پہلے بھی تلاش کرتی تھیں، جب وہ تھا اور اب بھی تلاش کرتی رہیں گی جب وہ نہیں ہے۔

کاش کل “بلوچستان ایکسپریس’’ اور “آزادی’’ کا ایڈیٹوریل ان الفاظ پر مشتمل ہو کہ،
“عشق کی تدفین نہیں ہوتی!’’

بشکریہ حال حوال