کوئٹہ میں میرے قیام کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ کوئٹہ کی سردیوں میں ہیٹر کا مزہ لیتے ہوئے اکتا چکا تھا۔ باہر کی سرد ہوا کھانے کو من نہیں? کر رہا تھا۔ لیکن کمرے میں? مسلسل میری موجودگی میرے لیے ذہنی اکتاہٹ?کا سبب بن رہی تھی۔ سو، ذہن میں? کئی خاکے آئے133 کہاں کا انتخاب کیا جائے اور کیوں چلا جائے۔ سوال ذہن میں گردش کرتا رہا۔ خیال آیا کیوں نہ روزنامہ آزادی کے دفتر کا انتخاب کیا جائے۔ جو کسی زمانے میں? آواران سے میری خبری رپورٹنگ کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
ادارے سے رابطے کا ذریعے فون ہی رہا لیکن کبھی بھی ان کے دفتر کا دیدار اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ اتنا معلوم تھا کہ اخباری دفاتر میں? انسانوں? کا میلہ شام کو ہی لگتا ہے۔ سو میں نے قدم جیسے ہی کمرے سے باہر نکالے تو مجھے یہ سریاب روڈ پر واقع روزنامہ آزادی کے دفتر کی جانب کھینچتے چلے گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ اخبار کا دفتر سدابہار ٹرمینل سے تھوڑا آگے سنجرانی اسٹریٹ کے اندر واقع ہے۔
سریاب روڑ پر کسی زمانے میں آساپ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ آساپ کی جگہ ہسپتال نے لے لی تھی۔ میں اسی ہسپتال کے سامنے سے گزر کر سنجرانی اسٹریٹ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ اسٹریٹ کے اندر داخل ہوتے ہی کسی سے میں نے روزنامہ آزادی کے دفتر کا پتہ معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسی گلی کے آخر میں بائیں جانب ایک گلی آئے گی(بلوچ کی منزل ہمیشہ “بائیں?جانب’’ ہی ملے گی!)، اسی گلی کے اندر روزنامہ آزادی کا دفتر واقع ہے۔ روزنامہ آزادی تک رسائی حاصل کرنا مشکل نہیں تھا۔
دفتر پہنچنے پر میں نے طارق بلوچ کا پوچھا، آواران سے خبریں بھیج کر عموما میرا رابطہ انہی سے ہوا کرتا تھا۔ کسی نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طارق وہ رہے۔ طارق سے سلام دعا ہوئی تو پتہ چلا کہ طارق روزنامہ آزادی کوئٹہ کے چیف ایڈیٹر واجہ صدیق بلوچ کے صاحبزادے ہیں۔ شام کا وقت اخباری دفاتر میں گہما گہمی کا وقت ہوتا ہے۔ طارق کی نظریں کمپیوٹر، ہاتھ کی بورڈ پر اور مجھ سے مکالمے کے لیے وہ زبان اور کانوں سے کام لے رہا تھا۔ سو میں نے وقت کی حالت و نزاکت بھانپتے ہوئے طارق بلوچ سے اجازت مانگی تو کہنے لگا کہ لالا سے ملنا چاہو گے؟۔ “لالا کون؟’’۔۔ کہنے لگے لالا صدیق۔۔۔ تو پہلی بار مجھے صدیق بلوچ کے نام سے پہلے لالا کا لفظ سنائی دیا۔ میں نے کہا، ہاں کیوں نہیں، نیکی اور پوچھ پوچھ۔
طارق نے کمپیوٹر سے اجازت مانگی اور مجھے سیدھا لالا صدیق بلوچ کے پاس لے کر گئے۔ شبیر رخشانی آواران سے ہیں، اخبار کے لیے خبریں بھیجتے ہیں۔ لالا صدیق فرطِ محبت سے اپنی سیٹ سے اٹھ گئے اور مجھے گلے لگایا۔ کافی دیر ان کی صحبت میں بیٹھے رہے۔ شروع میں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ایک مہان صحافی اور میں ایک ادنیٰ سا لکھاری۔ کیا کہوں گا، ان کے سامنے اگر وہ کوئی سوال پوچھیں تو کیا جواب دوں گا۔ لیکن انہوں نے چند ہی لمحوں میں مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا اور چند ہی لمحوں میں انہوں نے سینئر اور جونیئر کا بوجھ میرے ذہن سے اتار دیا۔ یہیں میری ملاقات آصف بلوچ، ظفر بلوچ، صادق بلوچ سے ہوئی، یہیں شہزاد بلوچ ملے۔
یہیں سے میرا روزنامہ آزادی کوئٹہ کا آنا جانا لگا رہا تو واجہ صدیق بلوچ سے ملاقات لازمی امر تھا۔ وہ بہت سی اسٹوریاں سنایا کرتا تھا۔ صحافتی کہانیاں سنا کرتا تھا۔ روزنامہ آزادی کوئٹہ کے دفتر کا ماحول اتنا اچھا لگا کہ میں اپنے آپ کو اسی دفتر کا فرد سمجھنے لگا۔ یہیں سے میں نے روزنامہ آزادی کوئٹہ کے لیے کالم لکھنے شروع کیے۔ نہ جانے میرے کالموں میں وہ دم تھا یا نہیں، البتہ میرے کالم روزنامہ آزادی کوئٹہ کے ادارتی صفحہ پر جگہ پانے لگے۔ یہ دلجوئی کا ایک پیغام تھا۔ پھر جب بھی ان کے دفتر جاتا تو دلجوئی کے کلمات وہ اپنی زبان سے ادا کرتے تھے۔ مجھ جیسے نئے لکھاری کو جیسے پر لگ جاتے۔ رفتہ رفتہ میں اس دفتر کا باقاعدہ ممبر بن گیا۔ میں نے روزنامہ آزادی کے لیے فیچر لکھنا شروع کیے۔۔
ایک دن معلوم ہوا کہ واجہ صدیق بلوچ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں اور علاج کے لیے وہ انڈیا گئے ہوئے ہیں، تو دل بیٹھ گیا۔ بہت جلد پتہ چلا کہ ان کا علاج کامیاب ہو چکا ہے اور وہ روبہ صحت ہو چکے ہیں۔ ہم شکر بجا لائے۔ ہم نے ایک بار پھر سے ہنستا اور مسکراتا ہوا چہرہ اپنے سامنے دیکھا۔
مئی2016 میں حال حوال کا جب باقاعدہ آغاز ہوا تو میں نے روزنامہ آزادی سے رپورٹنگ کا ناطہ توڑ دیا لیکن دلی رشتہ قائم تھا۔ اسمبلی سے بلوچستان کا بجٹ پاس ہوا تو اس بجٹ سے متعلق معلومات بہت کم لوگوں کے پاس تھیں، ان میں سے ایک صدیق بلوچ تھے۔ جو بلوچستان کی معیشت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ بلوچستان کی معیشت پر ان کی ایک کتاب بھی سامنے آ چکی تھی۔ سو میں نے انٹرویو کے لیے ان سے وقت مانگا۔ انہوں نے کہا، ’’وقت چیا لوٹے بیا دپترء4َ ‘‘ (وقت کیوں مانگتے ہو، دفتر آ جاؤ)۔
اب میرے پاس دوسری مشکل یہ آن کھڑی تھی کہ ایک شاگرد ایک استاد کا انٹرویو کیسے لے۔ ہمت کر کے چند سوالات تیار کر ڈالے اور روزنامہ آزادی کے دفتر کا رخ کیا۔ صبح دس بجے کا وقت تھا وہ حسبِ معمول اپنے دفتر میں موجود تھے۔ انٹرویو سے پہلے میں کافی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا تو میں اپنے آپ کو پْرسکون محسوس کرنے لگا۔ سوال سے سوال نکلتے گئے۔ یوں میں نے اپنی ناتجربہ کاری میں ان کا ایک کامیاب انٹرویو کر ڈالا۔ یقیناً کامیاب انٹرویو لینے میں انہی کا بڑا کردار شامل تھا۔
کوئٹہ سے جب اسلام آباد آیا تو جیسے ان کے دیدار سے محروم ہوگیا۔ ایک شام اچانک ان کی کال آئی کہ وہ اسلام آباد آئے ہیں۔ میں جھٹ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کافی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا۔ بلوچستان، بلوچستان کی سیاست و صحافت زیر گفتگو آئے۔ یہی ملاقات ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔
گزشتہ روز کسی دوست نے فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ تجھے معلوم ہے کہ لالا صدیق اب ہم میں نہیں رہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے عابد میر کو فون کیا تو انہوں نے اس خبر کی تصدیق کی۔
بلاشبہ لالا صدیق ایک عظیم صحافی تھے۔ وہ صحافت کی حرمت جانتے تھے۔ وہ بیک وقت دو روزنامے آزادی کوئٹہ اور انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس چلا رہے تھے۔ گو کہ وہ پیدا لیاری میں ہوئے لیکن وہ آواز بلوچستان کی بنے۔ وہ ایک توانا آواز تھے۔ جسے بڑی مصیبتوں نے بھی متزلزل نہیں کیا۔ گو کہ ان کے اخبار پر برے وقت آئے، مالی مشکلات پیدا ہوئیں لیکن وہ اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔ انہوں نے ان مصائب و مشکلات کا بھرپور طریقے سے سامنا کیا۔
لالا صدیق نے جاتے جاتے بلوچستان کی صحافت میں اپنا نام جاوداں کیا۔ انہوں نے اپنے پچاس سالہ کیریئر کو اپنی جدوجہد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ صحافت کی یہ مہار اب نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے کہ وہ لالا صدیق کے اصولوں کی کس طرح پاسداری کر کے اسے منزل تک پہنچائیں گے، جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا۔
بیتے پل، لالا صدیق کی یاد میں
وقتِ اشاعت : February 7 – 2018