|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2018

یہ تو قطعیت سے یاد نہیں کہ وہ کونسا دن یا تاریخ تھی لیکن یہ دس برس پہلے کا ہی کوئی دن تھا جب کراچی پریس کلب میں اس بزرگ شخص سے ملاقات ہوئی جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہمیشہ موجود رہتی۔اپنے دوست عارف بلوچ کے ساتھ اس شخص کی پریس کلب میں آمد پرمیں بھی ان بزرگ سے بڑے احترام سے ملا جسے سب “ماما،ماما”کہہ کر پکار رہے تھے۔

بلوچی زبان میں جب کسی کو عزت و تکریم سے پکارا جاتا ہے تو اسے “ماما”کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔یہ بزرگ ماما صدیق بلوچ تھے جو ہمارے دوست عارف بلوچ کے والد بزرگوار تھے۔

صحافت میں نووارد ہونے کی وجہ سے ہمیں ماما صدیق بلوچ کے بارے میں کچھ زیادہ آگاہی نہیں تھی لیکن دوست یاروں سے معلوم پڑا کہ کراچی اور بلوچستان کے بڑے بڑے صحافیوں کی صحافتی تعلیم و تربیت ماما صدیق بلوچ کے ہاتھوں پروان چڑھی۔ماما صدیق بلوچ جو لیاری میں پیدا ہوئے حصول تعلیم کے بعد انگریزی صحافت سے منسلک ہوئے اور اس شعبے میں ترقی و کامیابی کے زینے پھلانگتے ہوئے اس اوج ثریا پر جا کر مقیم ہوئے جس تک رسائی کا ہر صحافی خواہشمند ہوتا ہے۔

نوے کی دہائی میں کراچی کو خیر باد کرکے ماما نے کوئٹہ کو اپنا مسکن بنایا اور وہاں سے روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کا اجراء کر کے صوبے میں ایک نئی ترقی پسندانہ صحافت کی بنیاد رکھی۔کراچی پریس کلب میں ہمارا آنا جانا تو لگا رہتا لیکن ما ما سے ملاقاتیں ان دنوں ہی ہو پاتیں جب وہ کوئٹہ کے یخ بستہ موسم سے بچنے کے لیے دو ماہ کراچی میں اپنے آبائی گھر لیاری میں گزارتے اور ہفتے میں دو تین بار کراچی پریس کلب بھی تشریف لاتے۔

2011میں میں اسلام آباد سدھارا تو یہ ملاقاتیں کم ہو گئیں لیکن ماما جب بھی اسلام آباد آتے ان کے صاحبزادے عارف بلوچ ہمیں پیشگی اطلاع کر دیتے۔ اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ میں واقع ایک ہوٹل ان کا مستقر ہوتا اور میں کام دھندے سے فارغ ہوتے ہی ان کے کمرے میں جا دھمکتا کہ ماما سے بلوچستان اور اس کے ایشوز پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

ماما کو کہیں جانا ہوتا تو میں فوراً اپنی خدمات پیش کرتا کہ میری گاڑی میں چلیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزار کر کچھ سیکھا جا سکے۔اسلام آباد میں جب ان کی کتاب کی رونمائی ہوئی تو انہوں نے مجھے یاد کیا۔ان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب ابھی تک حافظے میں محفوظ ہے کہ جب وہ بلوچستان کے ایشوز پر اسلام آباد کے سامعین کو اصل صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے۔

2016میں کراچی واپسی کے بعد ماما سے ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ چل نکلا۔یہ جنوری کے اوائل کے دن تھے جب ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی کہ اچانک انہیں کوئٹہ روانہ پڑا۔کچھ روز بعدعارف بلوچ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ آنے والے ہیں۔ان سے اگلی ملاقات کا انتظار ہی تھا کہ منگل کی صبح سوشل میڈیا پر ان کی وفات کیخبر صبح سویرے دکھائی دی۔یقین نہ آیا تو عارف بلوچ کو فون کر کے استفسار کیا تو اس نے گلوگیر لہجے میں اس اندوہناک خبر کی تصدیق کی۔

ماما صدیق چلے گئے۔جانا تو سب کو ہے اور انہیں بھی موت کی اٹل حقیقت سے مفر نہ تھا لیکن وہ ایسی زندگی جیے جیسا جینے کا حق ہوتا ہے.ماما نے جسے حق سمجھا اس پریوں ڈٹے رہے کہ سود و زیاں کی پروا نہ کی۔

اخبار کا مالک ہونے کے باوجود ان کے اداریے اور آرٹیکل بے لاگ اور غیر جانبدار تبصروں سے مزین ہوتے جس کی پاداش میں انہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا لیکن ماما کی قلم کا نشتر ایسے دباؤ اور دھمکیوں سے کبھی کند نہ پڑا.دھیمے مزاج اور نرم لہجے والے ماما صدیق بلوچ منوں مٹی تلے جا سویا۔صدیق بلوچ اس عالم رنگ و بو سے رخصت ہو گئے گویا کہ ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔

بلوچ صاحب کی ذات ایک روشنی کا مینار تھے جس نے کئی ذہنوں کو منور کیا۔کئی آزمودہ کار مسافروں کی منزل کی جانب رہنمائی کی اور کئی صحافت کے ذروں کو چمکا کر انہیں آفتاب و ماہتاب کی تجلی بخشی۔ماما صدیق بلوچ چلے گئے لیکن ان کی یادوں کے چراغ تادیر ذہن و قلب میں فروزاں رہیں گے