|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2018

تاریک رات میں ، خوابوں کی جھرمٹ سے ٹہلتا ہوا اْجالے میں آپہنچا تو آج سانس لینے میں دْشواری محسوس ہورہا تھی. فضاء میں بھی ایک سوگوار دھند چھائی ہوئی تھی, ہر طرف مغموم حالت تھی, تیز ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔

لیکن درخت خاموشی کے چادر اْوڑھے سوگ میں مبتلا تھے.اس کے بعد موبائل پر نگاہ ڈالی تو یہاں سے بھی ماتمی خبریں موصول ہوئیں. چند منٹ بعد موبائل کی قہر بھری اسکرین پر درد بھرے الفاظ سسکیاں بھرتے ہوئے ماما صدیق بلوچ کے انتقال کی خبر پہنچارہے تھے.اس خبر کو سنتے ہی میں غموں کی تختے پر لیٹ کر خود کلامی شروع کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اور روشن ستارہ غروب ہوگیا ہے۔

. آج ایک پھول سوکھ گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے.دل کی آنکھ اشک سے نم ہو گئے اور ٹپکتے بوندوں سے مرحوم ماما کی تصویر بنتی گئی اور میں کھڑے کھڑے بے بس تصویریں دیکھتا رہا۔۔۔…ایک فقط میں نہیں پورے ملک و بلوچستان کے تمام مکاتب فکر کے لوگ اس سانحے پر رنج و غم میں مبتلا ہو کر مرحوم کیلئے آہ و سسکیاں بھرنے میں مصروف تھے.۔

ایک مغموم بھری داستان دل و دماغ پر چمٹی ہوئی تھی, دل کا درد آنسوؤں کی صورت آنکھوں سے نکل رہا تھا، بے چینی اتنی زیادہ تھی لگتا تھا کہ آج غموں تلے دب کر موت ہوگی۔
اگلے ر وز کے اخبار میں ممتاز نامور سینیئر صحافی، مصنف ،ادیب ،دانشور مرحوم ماما صدیق کی کئی تصویریں چھپیں دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آیا.جو صحافیوں کے متعلق تھا۔۔۔..

قتل کردو یا مار دو لیکن موت نہیں آئیگا مجھے
کیونکہ۔۔۔
آج مر جاونگا تو کل اخبار کی سْرخیوں میں زندہ ہوجاونگا

ماما انتقال ضرور کرگئے ہیں لیکن ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہینگے۔ماماصدیق بلوچ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ مشکل اورکٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آخری ایام تک اپنے قول و فکر پر قائم رہے ۔وہ جسمانی طور پر ہم سے ضرور بچھڑ گئے ہیں مگر روحانی طور پر ہمارے ساتھ ہیں. ۔