تربت : تربت پریس کلب کے زیراہتمام نامور صحافی ودانشور لالہ صدیق بلوچ کی یادمیں تعزیتی ریفرنس تربت پریس کلب میں منعقد ہوئی جس کی صدارت تربت پریس کلب کے صدر حافظ صلاح الدین سلفی نے کی جبکہ مہمان خاص سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ تھے ۔
، تعزیتی ریفرنس میں میونسپل کارپوریشن تربت کے میئرقاضی غلام رسول بلوچ، نیشنل پارٹی کے رہنماؤں چیئرمین حلیم بلوچ ،شے غلام قادر بلیدی، فضل کریم بلوچ، قادربخش بلوچ، نعیم عادل،بی این پی عوامی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری میر غفور احمدبزنجو، کامریڈ امام بخش، کہدا داؤد ، جمعیت علماء اسلام کے خالد ولید سیفی ، جماعت اسلامی کے غلام یاسین بلوچ، پی ٹی آئی کے اقبال دشتی، صدیق دشتی اورگہرام دشتی، کیچ بار ایسوسی ایشن کے قاسم گاجی زئی ایڈووکیٹ،عبدالمجید دشتی ایڈووکیٹ، بی ایس اوپجار کے عابد عمر بلوچ، جے ٹی آئی کے حافظ عبدالقدیر مینگل، انجمن تاجران تربت کے غلام اعظم دشتی، کیچ سول سوسائٹی کے اعجازاحمد ایڈووکیٹ ودیگرنے شرکت کی ، تعزیتی ریفرنس سے خطاب کیا ۔
تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے مرحوم صدیق بلوچ کی صحافتی ، سیاسی اور ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ صدیق بلوچ سیاست اور صحافت کے میدان میں ایک دلیرانسان تھے وہ حیدرآباد سازش کیس میں بھی بلوچ قیادت کے ہمراہ4سال پابند سلاسل رہے ۔
بلوچستان کی صحافت میں لالہ صدیق بلوچ اور انورساجدی نے جو ادارے قائم کئے وہ بلوچستان کی توانا آواز ہیں انور ساجدی کا قلم اردو میں بہت طاقتور ہے تو انگریزی میں صدیق بلوچ کے قلم کا کوئی ثانی نہیں،ان دونوں نے رپورٹرکی حیثیت سے اپنی صحافتی کیریئر کا آغاز کیامگر اپنی محنت ،جہد مسلسل اورجانفشانی سے نمایاں مقام حاصل کیا اور ان کے ادارے مزاحمتی صحافت کے اہم کردار رہے ، جبکہ حالیہ سالوں میں احمد اقبال بلوچ نے وش کے نام پربلوچ کو الیکٹرانک میڈیا میں ایک ادارہ دیا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قوموں کو بنیادی طورپر ادارے آگے لے جاتے ہیں چاہے وہ ادارے ادبی ہوں، سیاسی ہوں، صحافتی یا سماجی ادارے ہوں، انہوں نے کہاکہ صحافتی میدان میں صدیق بلوچ نے بڑے نشیب وفراز دیکھے مگر وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے ، گزشتہ سال کے اختتام پر انتخاب اور آزادی کے اشتہاربندکرائے گئے تاکہ یہ دونوں ادارے مالی کمزوریوں کا شکارہوکر سسک سسک کرجان دیدیں مگر ان دونوں اداروں نے استقامت کے ساتھ حالات کامقابلہ کیا ۔
انہوں نے کہاکہ صحافی اپنے قلم کو قومی ترقی وخوشحالی کی منزل کوقریب ترکرنے کیلئے بروئے کارلائیں ،میونسپل کارپوریشن تربت کے میئرقاضی غلام رسول بلوچ نے صدیق بلوچ کی صحافتی وقومی خدمات کو سراہتے ہوئے صحافیوں کوہدایت کی کہ وہ صدیق بلوچ کو اپنا رول ماڈل بناکر صحافت کے میدان میں اپنا کردارنبھائیں اور ان کے ادھورے فکر کو آگے بڑھائیں ۔
انہوں نے مرحوم کی مغفرت اور فرزندو ں کیلئے صبروتحمل کی دعاکرتے ہوئے امید ظاہرکی کہ پسماندگان ان کے قلم وفکری سوچ کومنزل تک پہنچانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے انہوں نے کہاکہ تربت کی تمام سڑکوں کے مجوزہ نام کمشنر مکران کو دے دئیے گئے ہیں تاہم مرحوم صدیق بلوچ کے نام سے ایک سڑک کومنسوب کیاجائے گا ۔
،معروف ادیب ودانشور اور انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر غنی پروازنے کہاکہ صدیق بلوچ نہ صرف ایک معروف صحافی تھے بلکہ انہوں نے ایک بھرپور سیاسی زندگی بھی گزاری ہے وہ این ایف ایف، بی ایس او ،نیپ ، ون یونٹ مخالف تحریک اورحیدرآباد سازش کیس میں نمایاں کرداررہے ۔
ادبی میدان میں انہوں نے دو کتابیں تصنیف کی ہیں جبکہ ان کا اصل میدان صحافت تھا انہوں نے صحافتی کیریئر کا آغاز روزنامہ ڈان کے رپورٹرکی حیثیت سے کیا بعدمیں سب ایڈیٹررہے پھر اپنا اخبار روزنامہ آزادی اوربلوچستان ایکسپریس نکالے، وہ ترقی پسند دانشور اور صحافی تھے ۔
سیاسی میدان میں جس طرح میرغوث بخش بزنجو کاتجزیہ حرف آخرسمجھاجاتاتھا بالکل اسی طرح صحافت میں صدیق بلوچ کاتجزیہ حرف آخرکی حیثیت رکھتے تھے بلوچستان کے معاملہ میں وہ انسائیکلوپیڈیا سمجھے جاتے تھے ، ایسے دلیر وبہادر صحافی صدیوں بعدپیداہوتے ہیں ۔
نئے صحافی انہیں اپنا آئیڈیل بناکر صحافتی میدان میں اپنی صحافت کے جوہر دکھائیں،معروف دانشور وادیب وشاعر یوسف عزیز گچکی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صدیق بلوچ بی ایس او کی تشکیل وفعالیت میں اہم کردار رہے ، ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد میں صدیق بلوچ ہمارے شانہ بشانہ رہے ۔
انہوں نے اپنی محنت وجانفشانی سے صحافت کے دنیامیں اپنا ایک نمایاں مقام بنایا ، بلوچستان کے مسائل ، مظلومیت اورپسماندگی کواجاگرکرنے میں ان کااہم کرداررہا وہ اپنی ذات میں بلوچ کاایک موثر اورتوانا آواز تھے ۔
،نامور دانشوروصحافی ، جے یو آئی ضلع کیچ کے امیرخالد ولید سیفی نے کہاکہ تربت پریس کلب کی جانب سے صدیق بلوچ کی یادمیں تعزیتی ریفرنس کاانعقاد نہایت خوش آئندہے کیونکہ صدیق بلوچ کی پوری زندگی قلم کے ساتھ محبت میں گزری، ان کاقلم فکری ونظریاتی روشنی پھیلاتا رہا۔
انہوں نے کہاکہ ایسی شخصیات کے نام پرہمیں یادگار بنانے چاہئیں تاکہ قوم یادرکھے کہ ہماری قوم میں ایسی ہستیاں گزرے ہیں ہمیں ان شخصیات کو نہ صرف یاد رکھنا چاہیے بلکہ زندہ صدیق بلوچوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
چیف افیسرمیونسپل کارپوریشن شعیب ناصرنے ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج میرے لئے فخرکامقام ہے کہ میں ایک ایسی ہستی کی یادمیں منعقدہ تقریب میں شریک ہوں جن کے ساتھ کوئٹہ میں میری کئی سالہ یادداشتیں وابستہ ہیں ۔
بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں تدریس کے دوران ہمارا ان کے پاس آنا جانا رہتا اور ان کے ساتھ اکثریت مجلس جمی رہتی جس میں اہم شخصیات اورطلباء بڑی تعدادمیں آتے رہتے ‘ سیاست وصحافت کے موضوعات پربحثیں ہوتی رہتیں ، صحافت کے میدان انہیں بہت سی مشکلات جھیلنی پڑیں مگر وہ ہمیشہ پرعزم رہے۔
ریفرنس کے آخرمیں تربت پریس کلب کے صدر حافظ صلاح الدین سلفی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صدیق بلوچ ایک خودداد اوربے لوث صحافی کی حیثیت سے اپنا پہچان رکھتے تھے وہ بلوچ مستقبل کے حوالے سے بہت فکرمند تھے وہ موجودہ گھمبیرحالات میں بلوچ قیادت کے بہترکردار اداکرنے کے متمنی تھے وہ چاہتے تھے کہ بلوچ سیاسی قیادت اس سلسلے میں بہترلائحہ عمل تشکیل دیکر بلوچ کی کماحقہ قیادت کرے ۔
تقریب کاآغاز جماعت اسلامی کے رہنما غلام یاسین بلوچ نے تلاوت قرآن پاک سے کیا جبکہ آخرمیں جے ٹی آئی کے حافظ عبدالقدیرمینگل نے مرحوم کے روح کے ایصال ثواب کیلئے دعاکی‘ نظامت کے فرائض تربت پریس کلب کے نائب صدر طارق مسعودنے سرانجام دیئے ۔
صدیق بلوچ کی صحافتی اور سیاسی خدمات نا قابل فراموش ہیں ، تربت میں تعزیتی ریفرنس
وقتِ اشاعت : February 18 – 2018