|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2018

سیاسی مقاصد کچھ بھی ہوں مگر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما اور بعض غیر جانب دار تجزیہ کار،تنقیدی نظر سے اپنا جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ کھل کر پتہ چل سکے کہ آج پاکستان افراتفری کا شکار کیوں ہے۔

مگر انتہا قوم پسند قوم پرستوں اور جنگی معیشت کے طفیلیوں کی طرف سے اپنا جائزہ لینے کے تمام مطالبات کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں نے1950 کی دہائی کے شروع میں پیش گوئی کر دی تھی کہ ملک ٹوٹ جائے گا کیوں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ساتھ رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔یہ پیش گوئی24 سال کے اندر صحیح ثابت ہوئی۔

حسن گردیزی اور جمیل رشید نے 1983 میں “Pakistan – an Unstable State”کے عنوان سے پاکستان کے ممتاز دانش وروں کے مقالوں کا ایک مجموعہ شائع کیا۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے قبل پیش گوئی کی کہ” اگر مجھے قتل کیا گیا تو تباہی آئے گی” ۔

بائیں بازو کے لیڈر طارق علی نے “Can Pakistan Survive?” کے نام سے کتاب لکھی۔ممتاز صحافی نجم سیٹھی نے بھارت میں ایک سیمینار کے دوران خیال ظاہر کیا کہ” پاکستان ایک ناکام ریاست ہے” ۔ایک اور نامور صحافی خالد احمد نے بھی 2002 میں لکھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ممتاز مصنف احمد رشید نے “Descent into Chaos” تحریر کی۔

میں نے”What’s Wrong with Pakistan?”کے عنوان سے کتاب لکھی۔Christoph Jafferelot نے “Pakistan Paradox” میں اپنی رائے بیان کی۔دیگر بہت سے ایسے مصنفین ہیں جنھوں نے اپنی تصانیف میں پاکستانی ریاست کی کمزوریوں کا تجزیہ کیا ہے۔ان کتابوں کی طویل فہرست ہے۔

طارق کھوسہ کی کتاب”The Faltering State – Pakistan’s Internal Security Landscape” اپنے عمل کا جائزہ لینے سے متعلق ادب میں ایک اچھاا ضافہ ہے۔یہ کتاب ،ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے ان کے حوصلہ افزا آرٹیکلز کا مجموعہ ہے۔اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ لکھنے والا داخلی سلامتی کے منظر نامے کے اندر کا آدمی ہے۔

میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کے صرف چار ابواب میمو گیٹ، بے نظیر قتل کا معمہ، ممبئی حملوں کا مقدمہ اورDeep State کا ذکر کروں گا۔جب کتاب کے مصنف طارق کھوسہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے میمو گیٹ کمیشن کا سربراہ بننے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے” اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا،جس کا نشانہ آصف زرداری اورواشنگٹن میں ان کے سفیر تھے”۔لگتا ہے کہ ایک تجربہ کار پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ آئی ایس آئی کے(اُس وقت کے)چیف، جنرل پاشا کا اسٹنگ آپریشن ہے۔یہ فیصلہ کرتے وقت ان کے ذہن میں جو سوال اٹھ رہے تھے ۔

ان میں سے چند یہ تھے کہ:نواز شریف، وکیل کی طرح کالا کوٹ پہن کر عدالت میں کیا کر رہے ہیں؟۔ان کے اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کا کیا بنا؟اور کیا انھیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

کھوسہ نے اسی باب میں لکھا ہے کہ ” میمو گیٹ،واٹر گیٹ نہیں تھا۔نکسن کے بر عکس،زرداری کو استعفا نہیں دینا پڑا،تاہم اس میں حسین حقانی کو سب کچھ چھوڑنا پڑا،جن پر الزام تھا کہ انھوں نے میمو لکھ کر مائیک مولن کو پہنچایا تھا” ۔طارق کھوسہ جرات مندی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ” اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کے حوالے سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی،حالانکہ انٹیلجنس چیف اور چیف آف آرمی اسٹاف نے پارلیمنٹ کے سامنے انٹیلجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔

نہ کسی میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس وقت کے سیکیورٹی کے سربراہوں سے کوئی سخت سوال کرتاجو ملازمت میں توسیع کے خواہش مند تھے اور ریٹائر ہونا نہیں چاہتے تھے۔

جب2009 میں بے نظیر بھٹو کا قتل کیس ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا تو طارق کھوسہ تفتیش کی سربراہی کر رہے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ” تفتیشی ٹیم کو عینی شہادتیں اور دستاویزی،فارنزک اور واقعاتی شہادتیں جمع کرنے کا کام سونپا گیا—

یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کی گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے کیا گیا تھا جو گاڑی میں بے نظیربھٹو کے ساتھ تھے” ۔سینیٹر صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ،ناہید خان سر عام یہ دعویٰ کر چکے تھے کہ ان کی رہنما کو قتل کرنے کے لیے شارپ اسنائپر فائراور ایک خاص قسم کا انٹیلجنس آپریشن کیا گیا۔

پی پی پی کی ترجمان ،شیری رحمان نے کہا تھا کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ان کے بیانات اور ایک سیکیورٹی گارڈ،خالد شہنشاہ ،جسے ٹی وی فوٹیج میں اسٹیج کے قریب بے نظیر بھٹو سے کچھ ہی فاصلے پر جلسے سے ان کی روانگی سے قبل اشارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، کے مشکوک طرز عمل کی تفصیلی تحقیقات کی ضرورت تھی۔

طارق کھوسہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے رحمٰن ملک سے مدد مانگی تھی،جو بے نظیر کے چیف سیکیورٹی آفیسر تھے ،مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔شاید پی پی پی کی حکومت میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگاتی اور اسی لیے اس نے اقوام متحدہ کے کمیشن سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے درخواست کی ۔

اقوام متحدہ کے کمیشن نے ڈیپ اسٹیٹ کے نا معلوم سیکیورٹی افسروں کے حکم پر پولیس کی جانب سے کراچی اور راولپنڈی، دونوں مقامات پر جائے وقوعہ کو دھو دینے جیسے معاملات اٹھا کر بالواسطہ طریقے سے مشرف اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا۔اسی طرح ،ان کے قتل کے بعد بعض اہم شہادتیں غائب تھیں۔طارق کھوسہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے یو این کمیشن کے نتائج اور سفارشات پر ” ایک پروفیشنل کی حیثیت سے” اُس وقت کے وزیر اعظم کے نام اپنے ایک کانفیڈنشل خط میں اپنی رائے دی مگر ان سفارشات کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا۔

بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کے بارے میں جب بھی کوئی بات چیت ہوتی ہے پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے ممبئی حملوں کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔بھارت کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے کہ پاکستان،ممبئی حملے کے ذمہ داروں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو سزا دے،جن میں 162 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ لشکر طیبہ کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں۔

طارق کھوسہ نے “Mumbai Attacks Trial” کے عنوان سے باب میں جو کچھ بتایا ہے اس کی روشنی میں ہمارا سرکاری موقف مضحکہ خیز لگتا ہے۔وہ درج ذیل حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں: اول،اجمل قصاب پاکستانی شہری تھاجس کی رہائش ،ابتدائی تعلیم اور کالعدم عسکریت پسند تنظیم میں اس کی شمولیت ،تحقیقات کرنے والوں کی طرف سے ثابت ہو گئی۔

دوئم، لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کو سندھ میں ٹھٹھہ کے قریب تربیت دی گئی اور وہیں سے انھیں سمندر کے راستے روانہ کیا گیا۔تربیتی کیمپ کی نشاندہی ہو گئی اور تفتیش کاروں نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ممبئی میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا اس کے ڈبے اس تربیتی کیمپ سے برآمد کیے گئے اوران کی تصدیق ہو گئی۔

سوئم، دہشت گردوں کی جانب سے انڈین ٹرالر ہائی جیک کرنے کے لیے ،جس میں انھوں نے ممبئی تک کا سفر کیا،ماہی گیری کا جو ٹرالر استعمال کیا گیا تھا ، وہ واپس ہاربر لایا گیا ،پھر اس پر رنگ کیا گیا اور اسے چھپا دیا گیا۔تفتیش کاروں نے اسے برآمد کیا اور اس کا تعلق ملزموں سے جوڑا۔

چہارم،اس چھوٹی لانچ ،جسے دہشت گردوں نے ممبئی کے قریب چھوڑ دیا تھا،کے انجن پرپیٹنٹ نمبر تھا جس کے ذریعے تفتیش کاروں نے اس کے بارے میں تمام معلومات ڈھونڈھ نکا لیں،اسے جاپان سے لاہور درآمد کیا گیااور پھر کراچی کی ایک اسپورٹس شاپ پر لایا گیا،جہاں سے لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے ایک عسکریت پسند نے اسے کشتی کے ساتھ خریدلیا۔

منی ٹریل کو تلاش کیا گیا جو آخر میں ملزم تک پہنچتی تھی ، جسے گرفتار کر لیا گیا۔پنجم، کراچی میں اس آپریشن روم کا بھی سراغ لگا لیا گیا جہاں سے ہدایات دی گئیں،تفتیش کاروں نے اسے بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔انٹرنیٹ پروٹوکول پرآواز کے ذریعے مواصلاتی رابطوں کو بھی بے نقاب کیا گیا،ششم، مبینہ کمانڈر اور اس کے نائبین کی نشاندہی کی گئی اور انھیں گرفتار کیا گیا۔

ہفتم، پیسہ فراہم کرنے والے دو افراد کو جو بیرون ملک مقیم تھے گرفتار کیا گیا اور انھیں مقدمہ چلانے کے لیے لایا گیا۔اگر ہچکچاہٹ کی شکار اسٹیبلشمنٹ،بھارت کو نشانے پر رکھنے والی ان جہادی تنظیموں کے لٹریچر ہی کی چھان پھٹک کر لیتی تو اسے ان دہشت گردوں کے بارے میں بہت بڑی تعداد میں ثبوت مل جاتے،جنھیں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اپنا کہتے ہیں اور جب یہ بھارت سے متعلق کسی مشن میں مارے جاتے ہیں تو سرحد پار دہشت گرد سرگرمیوں پر ان کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔

طارق کھوسہ نے جو پولیس اور ایف آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز رہے،”The Deep State” میں بڑی جرات کے ساتھ بات کی ہے اور ایسے متعدد واقعات کا ذکر کیا ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔انھوں نے خاص طور سے بتایا ہے کہ ” ریاست نواز اور ریاست دشمن عسکریت پسندوں” میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔

یہ سب پر تشدد ایجنڈا پر عمل کرتے ہیں۔خفیہ سیاسی مقاصد کے ساتھ یا ان کے بغیر،پرائیویٹ عسکریت پسندوں کی تشکیل اور تشدد پسند تنظیموں کا قیام سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔غور کیجئے!آپ آج جس جن کو پیدا کریں گے وہ کل آپ ہی کو ڈرائے گا۔براہ کرم ممنوعہ عسکریت پسند تنظیموں کو روکیے،پابند کیجئے اور ان کے لیڈروں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایئے۔ڈیپ اسٹیٹ ان غیر ریاستی اداکاروں کی تخلیق میں مدد کرتی ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ پاکستانی ریاست کے بخیے ادھیڑ دیں گے۔

مصنف نے شروع ہی میں عاجزی کے ساتھ امید ظاہر کی ہے کہ ” یہ کتاب ،پالیسی سازوں اور داخلی سلامتی کے موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے والے پروفیشنلز کے لیے نہ صرف اصلاح کا ذریعہ ہو گی بلکہ ان تمام جرات مند،با ضمیر اور محب وطن سیکیورٹی حکام کی ہمت افزائی کرے گی جو اس عظیم قوم کے لیے ایک پر امن، ترقی پسند اور خوش حال مستقبل دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو لکھاری سچ لکھتے ہیں ان کی کتاب کو وہی لوگ نہیں پڑھتے جن کا معاملات سے تعلق ہوتا ہے۔