سینیٹ انتخابات کے قریب آتے ہی عدلیہ کی جانب سے غیر معمولی فیصلوں نے ملکی سیاست کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ فیصلے ہم نے میرٹ کی بنیادپر کئے ہیں ۔ نواز شریف نے فیصلے کے بعد سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب میرے نام کو بھی تبدیل کیاجائے گا۔
نواز شریف سمیت لیگی وزراء نے فیصلوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں یہی توقع تھی کہ فیصلہ خلاف ہی آئے گا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ اپنی جگہ مزید مضبوط کرچکی ہے ، عوام کی حمایت سے دو تہائی اکثریت سے اگلی حکومت ایک بار پھر ن لیگ بنائے گی ۔
لیگی وزراء ایک بار پھر حکومت میں آنے کے بعد62 اور 63 کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور اب بھی مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف کو ہی تسلیم کررہے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں اب مسلم لیگ ن کے امیدوار آزاد حیثیت سے حصہ لینگے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن پرن لیگ کی گرفت اسی طرح برقرار رہے گی جو پہلے تھی ۔
مسلم لیگ کی صدارت اب میاں محمد شہباز شریف کے ہاتھوں سونپ دی گئی ہے جس کی توقع پہلے سے ہی کی جارہی تھی اور اس کا فیصلہ بھی میاں محمد نواز شریف نے ہی کیاہے ۔اب تک مسلم لیگ کی پالیسیاں میاں محمد نواز شریف کی ہی مشاورت سے بن رہی ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت اب بھی نواز شریف کررہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں لیگی رہنماؤں نے نوید سنادی ہے کہ وہ ایک بار پھر نواز شریف کو سیاسی میدان میں لائینگے یعنی ایک بار پھر اگر ن لیگ حکومت میں آئی تو قانون سازی کے ذریعے نواز شریف کیلئے راستہ صاف کیا جائے گا۔ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ن لیگ کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دے رہیں ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس پورے عمل کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ اس کی وجہ عوام سے رابطوں میں کمی یا عوام کے درمیان عدم موجودگی رہی ہے جبکہ اس کی نسبت ن لیگ نے اس پورے دورانیہ میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کیا جو کبھی پی ٹی آئی کرتی رہی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
وزیرداخلہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ یہ مسلم لیگ ماضی کی جماعت نہیں رہی جو گلی کوچوں میں تقسیم تھی بلکہ یہ ایک مضبوط جماعت بن چکی ہے اور اس کی جڑیں اب عوام میں ہیں۔ سیاسی صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیاجائے تو ماضی سے لیکر آج تک سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ خود سیاسی جماعتیں رہی ہیں اور اس میں پیش پیش بڑی جماعتیں رہی ہیں جنہیں پاکستان کی رولنگ پارٹی کا اعزاز حاصل ہے۔
یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہورہا کہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے مگر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے یہ سیاسی جماعتیں مزید محاذ آرائی کی طرف بڑھی ہیں جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اتنی مضبوط نہیں رہی ۔
ہر جماعت نے اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کا خود مقابلہ کیا اور اپنی ہی جماعت اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ کاش یہی مفادات عوامی خواہشات پر مبنی ہوتیں تو یقیناًصورتحال مختلف نظر آتی۔ موجودہ سیاسی بحران جو دکھائی دے رہا ہے شاید اس سے نکلنا اتنا آسان نہیں ۔
اداروں کا احترام سب پر لازم ہے لیکن جس طرح اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی طرف بڑھتا موجودہ ماحول دکھائی دے رہا ہے،یہ مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں کیونکہ ملکی سیاست میں مثبت تبدیلی لانا سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے ۔آگے ملکی سیاست کس کروٹ بدلے گی سب کی نظریں اسی پر لگی ہوئی ہیں۔
ملکی سیاست کیا کروٹ لے گی؟
وقتِ اشاعت : February 24 – 2018