لڑکپن کا دور تھا ،تعلیمی فراغت کے بعد کچھ کرنے کا شوق ذہن میں سر ایت کر چکا تھا،لکھنے کا جنون ہمیشہ سر پر سوار رہتا ،رات بھر جاگ کر،کوشش بسیار کے بعد اپنے تئیں ایک درست اور بامطلب مضمون لکھنے کامہم سر کرنے کے بعد اسکے چھپنے کی خواہش دل میں لیئے اخبارات کا چکر کاٹناجیسے روز مرہ کے شغل کا حصہ بن گیا تھا ۔
مجھے وہ دن کبھی نہیں بولتا ،رات بھر مغز ماری کے بعد لکھا مضمون بغل میں دبائے ایک اخبار یڈیٹر کے حضور دست بستہ کھڑا تھا۔موٹی تہہ والی چشمہ اتار کر ایڈیٹر صاحب نے متکبرانہ انداز میں اشاروں سے پوچھا ۔۔۔کیا ہے؟ ۔۔احتراماً سیاہ کردہ چار صفحے انکے سامنے پیش کرنے ہی والا تھا کہ جناب کا پارہ آؤٹ ہوگیا ۔۔۔
یہ لکھنا پڑھنا تم 249249 بلوچوں249249 کی بس کی بات نہیں جاؤ کوئی سرکاری ملازمت پکڑو 249249سفارش249249 کی ضرورت پڑی تو میرے پاس آجانا ، ابھی میں ٹیبل پر سے اپنے صفحات سمیٹ ہی رہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب آن وارد ہوئے۔
بی این ایم کا پریس ریلیز حوالے کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب سے 249249بیک پیج،، پر جگہ دینے کی دست بستہ گزارش کر نے لگا ،لیکن ایڈیٹر کی فرعونیت اب بھی بر قرار تھی ،ڈاکٹر عبدالحئی کی درخوست بلا جھجک مسترد کردی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے وسائل والی روایتی جملہ کسا ،آگے سے جناب آڈیٹر کا جواب آیا ،جائیے ہمارے اخبار پر بلوچستان کے وسائل سے اشتہار لینے کا کیس داخل کرا دیجئے،یہ ماجرا دیکھ کر زندگی میں پہلی بار ایک نومولود لکھاری اور کہنہ مشق سیاستداں کو اڈیٹر کے سامنے یوں بے بس پایا تو دل بیٹھ گیا۔
بلا مبالغہ لالا صدیق کے’’ آزادی اخبار‘‘نے بلوچ قوم پرست جماعتوں اور نئے لکھاریوں کو زندہ رہنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا، گوکہ آزادی سے قبل بلوچستان ایکسپریس اور حب میں249249انتخاب،، موجود تھے لیکن کوئٹہ میں کوئی بلوچ نمائندہ اردواخبار نہ ہونے کیو جہ سے 249249 قومی،، اخبارروں کی فرعونیت آب تاب سے جاری تھا۔
’’روزنامہ آزادی‘‘ کے اجراء کے بعد لالا صدیق نے اخباروں میں مقابلے کا رجحان پروان چھڑایا، جو ایڈیٹران کوکسی سیاسی ورکرا ور یہاں کے مقامی لوگوں سے سیدھے منہ بات کر نا گوارا نہ تھا انہیں مجبوراً یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اپنے خبارات میں جگہ دینا پڑا۔۔
لالا صدیق سے شناسائی 2001 سے تھا ان کی رہنمائی سے بہت کچھ لکھنے اورسیکھنے کا موقع ملا ،خصوصاً بجٹ اور سیندک سے متعلق کوئی بھی رپورٹ فائل کرنے سے پہلے لالا صدیق سے رہنمائی حاصل کرنا میرے لئے لازمی تھا ۔
بلا جھجک لالا کو فون گھما دیتے اور آگے سے شفقت بھرالہجہ حوصلوں کو مزید جِلا بخشتا تھا ۔
ایک بار ریکوڈک کیس سے متعلق ایک رپورٹ فائل کرنے بیٹھا تھا رہنمائی کیلئے جھٹ سے موبائل فون اٹھا کر لالا کو کال کر دیا ،کال ریسیو ہونے کے بعد معلوم ہو ا کہ لالا محو سفر ہیں اورجہاز میں بیٹھے ہیں،انہیں کوئٹہ سے کراچی جانا تھا،ان سے مدعا بیان کیا تو کہنے لگے ۔
249249 اڑے من راہ ئن ،، یہ سن کر میں معزرت کر کے 249249 اللہ میارءِ ،، کہہ کر فون بند کر دیا ۔۔کوئی دوگھنٹے کے بعد لالا کا فون آیا کہنے لگا 249249 ہاں اڑے نوں بگش چہ جست کنگیئت ،، ۔۔۔۔
لالا کے بچھڑ جانے کے بعد اب انکی یادیں ہی رہ گئی ہیں لیکن پسماندگان سے یہ یقین کامل ہے کہ 249249 آزادیِ ،، میڈیا ہاؤس لالا کے مشن کو جاری و ساری رکھے گا ،جونیئر اور نئے آنے والے والوں کیلئے’’ آزادی‘‘ اکیڈمی یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔۔
اس وقت کوئٹہ میں ڈیسک اور فیلڈ پر کام کرنے والے لاتعداد صحافی موجود ہیں ان میں سے بیشتر نے اپنے کریئر کا آغاز بلوچ رجحان رکھنے والے اخبارات سے ہی کیا ہے۔
ان ا خبارات میں’’روزنامہ آزادی‘‘۔۔۔’’روزنامہ انتخاب‘‘۔۔۔روزنامہ توار۔۔۔اور’’ آساپ ‘‘ سرفہرست ہیں ،لیکن بد قسمتی سے ان خبارات کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹ گئی ہے۔ اس کمی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کھٹن حالات کامقابلہ تب کیا جا سکتا ہے جب پالیسی میکر پروفیشنل ہوں۔
،میں سمجھتا ہوں کہ’’ انتخاب‘‘ اور’’ آزادی‘‘ طوفانوں سے بچ نکلنے میں اس لئے بھی کامیاب ہو گئے کہ لالا اور انور ساجدی اخباری شعبے سے وابستہ تھے ۔نواب زہری کی حکومت میں بھی حکومتی نزلہ ان ہی دواداروں پر پڑتے دیکھا لیکن لالا اور انور ساجدی نے ان آزمائشوں کا بھی جوان مردی سے مقابلہ کیا ۔۔
آزمائشیں آگے بھی آئیں گی اور ہر بار ان کا مقابلہ بھی کرنا پڑے گا، لالا کے جانے کے بعد پسماندگان کو ہر آزمائش کیلئے خودکو تیار کر نا ہوگا۔دعا ہے کہ لالا کی ’’آزادی ‘‘ہر سختی سے آزاد رہے۔