|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2013

گزشتہ دنوں میر علی وزیرستان میں فوجی چوکی پر خودکش حملہ ہوا جس میں بعض فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ خود کش حملہ اس وقت ہوا جب فوجی مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے اور دہشت گرد نے اپنی گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرادی۔ چند ایک گاڑیاں جو زخمیوں کو اسپتال پہنچارہی تھیں ان پر بھی حملے ہوئے اس کے بعد فوج نے جوابی کارروائی کی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ ان دہشت گردوں کا تعلق ازبک گروپ سے ہے جو پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان بھر میں انہوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں کیں جس میں کوئٹہ بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ازبک دہشت گردوں نے فوجی چیک پوسٹ کو کیوں خودکش حملے کا نشانہ بنایا؟ شاید یہ بڑے منصوبے کا حصہ تھا کہ فوج اور ایف سی کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں۔ اسی قسم کے اعلانات تحریک طالبان کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ ان سب باتوں کے بعد یہ توقع رکھنا کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی، ایک گمراہ کن تصور ہوگا۔ چنانچہ فوج نے ازبک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، ان پر بمباری اور شیلنگ کی جس میں 60سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق صرف ازبک دہشت گردوں اور ان کے اتحادیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں اور بمباری میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔ سرکاری ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فوج نے احتیاط سے کام لیا اور عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی اندھا دھند بمباری کی گئی بلکہ دہشت گردی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ضرور شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے علاقے میں کرفیو نافذ ہے۔ پیر کے دن کرفیو میں نرمی کی گئی جس کے بعد پھنسے ہوئے لوگ اپنے گھروں کو پہنچے۔ مختلف شہروں کے درمیان ٹریفک کی بھی اجازت دی گئی۔ ایک ہفتے کے کرفیو کے دوران ان شہروں اور دیہاتوں کی معیشت تباہ ہوگئی۔ دوسری جانب چند ایک مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے فوج کے جوابی کارروائی کی مذمت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ ’’بدلہ‘‘ کی کارروائی ہے ۔گو کہ ان مذہبی رہنماؤں نے فوج پر خودکش حملے کی مذمت نہیں کی کیونکہ اس سے ان کے اتحادی طالبان ناراض ہوں گے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر ملکی دہشت گرد ہمارے ملک میں کیوں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا کیا جواز ہے۔ یہ ہماری سرزمین استعمال کرکے دوسرے اور پڑوسی ممالک میں حملے کرتے ہیں ،پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب کرتے ہیں۔ آئے دن امریکہ، اس کے ناٹو اتحادی اور افغانستان یہ الزامات لگاتے رہتے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کو یہ ذمہ داری یاد دلاتے ہیں کہ دہشت گرد پورے خطے کے لیے ایک خطرہ ہیں اور پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے اور ان کا صفایا کرے ورنہ زیادہ طاقتور ممالک اقوام متحدہ کے توسط سے ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک صورت حال بن سکتی ہے کہ امریکہ، ناٹو اور دیگر ممالک پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں۔ اس صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان خود کارروائی کرے اور بھرپور کارروائی کرے تاکہ یہ دہشت گرد ہماری سرزمین سے بے دخل ہوں اور پاکستان بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ ہو۔ مذہبی اور دائیں بازو کے نیم پختہ سیاستدانوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ڈرون حملے اسی وقت بند ہوسکتے ہیں جب دنیا کو یہ یقین ہوجائے کہ پاکستانی افواج غیر ملکی دہشت گردوں اور ان کے مقامی اتحادیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کررہی ہے۔