|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2018

آج سرمایہ داری کی تباہی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپنی انقلابی پیدائش پر سرمایہ داری نے سائنس، ٹیکنالوجی، انفرا اسٹرکچر، حقوق، سماجی رشتوں اور خاندان کی نئی اشکال سے انسانیت کی ایک وسیع آبادی کو جاگیردارانہ تاریکی اور جہالت سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن ہر معاشی نظام اور اس سے جڑے سماجی رشتوں، ثقافت اور روایات کی طرح یہ نظام بھی اب اپنی تاریخی عمر پوری کر کے دم توڑ رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ان ذلتوں کا سب سے بڑا شکار عورت اور بچے رہے ہیں۔

اگر تیسری دنیا کی محنت کش خواتین کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا کہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک طرف معاشی یلغار ہے تو دوسری طرف سماجی بندھن، لیکن پاکستان میں جس طرح سے عورت ظلم کا نشانہ بن رہی ہے، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ آج تک خاص طور سے تیسری دنیا کے ملکوں میں عورت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کرسکی۔

عورت کو ہمیشہ سے جذباتی اور جسمانی طور پر کم زور گردان سمجھ کر اسے مردوں کے تابع سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے عورت کو بچے پیدا کرنے والی جنس سمجھا جاتا ہے اور ذاتی ملکیت کے وارث کا محافظ بنا کر گھر میں بند کردیا جاتا ہے گویا وہ چوبیس گھنٹوں کا بیگار کرتی ہے۔

محنت کش طبقے کی تاریخ جدوجہد، قربانیوں اور سب سے بڑھ کر خواتین کے بنیادی کردار سے بھری پڑی ہے۔ چاہے وہ غلاموں کی بغاوتیں ہوں ، جاگیردارانہ عہد میں کسانوں کی بغاوتیں ہوں یا پھر سرمایہ داری کے بھرپور انقلابات ہوں، عورتوں کا اس حوالے سے ہمیشہ اہم اور بنیادی کردار رہا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں بارہا کئی تحریکوں میں خواتین نے مردوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ روس میں جب انقلاب کی شروعات ہوئی تو یہ خواتین کا عالمی دن تھا جب محنت کش خواتین نے روٹی کے لیے احتجاج کیا۔ اگلے چند سال میں خانہ جنگی سے لے کر ریاستی امور تک، خواتین نے ہر شعبے میں شاندار کردار ادا کیا۔ پھر اس انقلاب کے اثرات صرف سوویت یونین تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئے۔

ہر ملک میں انقلابی تحریکوں میں کروڑوں خواتین سڑکوں پر محنت کش طبقے کے حقوق کیلئے باہر نکلیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے اگلے دن امریکا میں لاکھوں خواتین نہ صرف سڑکوں پر باہر نکلیں بلکہ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی میں پوری دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں تھا جہاں خواتین احتجاج میں باہر نہ نکلی ہوں۔

سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکم راں طبقہ کئی طریقوں، حیلے بہانوں اور مکار چال بازیوں سے محنت کش طبقے کو منقسم کر نے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر محنت کش ایک دیو ہیکل قوت نہ بن جائیں۔ اس کی وجہ اپنے مالیاتی مفادات اور ذاتی ملکیت کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے نسلی، لسانی، مذہبی، علاقائی اور قومی تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے، لیکن سب سے بڑھ کر یہ تقسیم مرد اور عورت کے قدرتی رشتے پر بھی شدت کے ساتھ حاوی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کی آدھی قوت کو ایک دوسرے سے توڑ کر بیگانہ کر دیا جاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کوئی تحریک، کوئی انقلاب اس وقت تک کام یاب نہیں ہو سکتا جب تک عورت ، مرد کے شانہ بہ شانہ جدوجہد میں شامل نہ ہو۔ یہ صرف طبقاتی بنیادوں پر ہی ممکن ہے، کیوں کہ پھر طبقاتی مفادات جہاں پر مردوں کی سوچ سمجھ اور عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، وہیں پر خواتین بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔