|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2018

اسلام آباد: نوائے وقت گروپ کی چیف ایگزیکٹو افسر ( سی ای او) رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ وفاقی محتسب پرسن برائے خواتین کشمالہ طارق کے دفتر میں وقت نیوز کی ٹیم کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور انہیں غیر قانونی طور پر یرغمال بنایا گیا۔

خیال رہے کہ کشمالہ طارق کام کرنے کے مقام پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف وفاقی محتسب ہیں۔

رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے سلسلہ وار ٹوئٹ کرتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ وقت نیوز کی ٹیم کشمالہ طارق کے دفتر میں انٹرویو ریکارڈ کرنے گئی تھی، تاہم وہ مبینہ طور پر اس انٹرویو سے غیر مطمئن ہوئی اور ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایت دی کہ وہ وقت نیوز ٹیم سے فوٹیج واپس لے اور اے ضبط کرلے۔ 

رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ جب ٹیم کی جانب سے فوٹیج دینے سے انکار کیا گیا تو کشمالہ طارق کے اسٹاف نے مبینہ طور پر انہیں غیر قانوی طور پر یرغمال بنایا اور ان کے ساتھ جھگڑا بھی کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقت نیوز ٹیم کے رکن مطیع اللہ جان جن کے پاس فوٹیج تھی، انہوں نے اسے دینے سے انکار کیا تو ان پر تشدد بھی کیا گیا۔

اس حوالے سے مطیع اللہ جان نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کشمالہ طارق کے حکم پر کہ وقت نیوز کے پروگرام ’ اپنا اپنا گرہبان‘ کی ٹیم پر حملہ کیا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔ 

انہوں نے الزام لگایا کہ’ کشمالہ طارق کو سوالات پسند نہیں آئے تھے جس پر انہوں نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ ہمیں پکڑیں اور ویڈیو ضبط کریں، جس کے بعد ہمارا سامان ضبط کرلیا گیا اور ہمیں کئی گھنٹوں تک غیر قانونی طور پر یرغمال بنایا گیا‘۔

رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’اگر کشمالہ طارق کو کسی چیز پر اعتراض تھا تو وہ انٹرویو کا جائزہ لینے کے لیے بلا سکتے تھے لیکن انہوں نے ہدایت دی کہ وقت نیوز کی ٹیم کو فوٹیج کے ساتھ جانے نہیں دیا جائے ، جس کے بعد فوٹیج واپس کرنے سے انکار کرنے پر ان کی ٹیم نے ہمارے اسٹاف پر حملہ کیا اور زبردستی فوٹیج واپس لے لی۔‘

نوائے وقت کی سی ای او کی جانب سے الزام لگایا گیا ’جب ان کی ٹیم نے آفس سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس دوران پولیس بھی بے بس نظر آئی اور میرے خیال میں انہیں بھی کشمالہ طارق کے اسٹاف نے ہماری ٹیم کی طرح روکا تھا‘۔

خیال رہے کہ اس دوران رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے ایک ویڈیو بھی ٹوئٹ کی گئی جس میں کچھ مردوں کو دوسروں کو روکتے ہوئے دیکھا گیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ’ کشمالہ طارق کے اسٹاف نے ہماری ٹیم کے موبائل، کیمرے اور دیگر سامان ضبط کرلیا اور جب مطیع اللہ جان نے فوٹیج اپنے پاس رکھی تو انہیں مارا گیا اور ان کی جیکیٹ پھاڑدی گئی اور اس دوران وقت نیوم کی ٹیم محصور ہوگئی‘۔

دوسری جانب نجی ٹی وی جیو کے صحافی اعزاز سید کی جانب سے بھی ایک ویڈیو ٹوئٹ کی گئی جس میں ہ مطیع اللہ جان کو پولیس افسر سمیت تین لوگوں سے صلاح کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس ویڈیو میں ایک سرخ قمیض میں ایک شخص دوسرے سے کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ ’ ہم نہیں جانتے کیا ہوا اور میڈم کی جانب سے خود سے کیمرہ چھیننے کی کوشش کی گئی جبکہ ویڈیو میں مطیع اللہ جان کا کوٹ پھٹا ہوا ہے اور ان کے ہاتھ اور منہ پر زخم کے نشان واضح ہیں۔

تاہم جب ان سب الزامات کے حوالے سے ڈان کی جانب سے کشمالہ طارق سے رابطہ کیا گیا تو ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔