|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2018

انسانی تاریخ کے عظیم ترین سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس کے مطابق کرہ ارض یاسیارہ زمین آئندہ چھ سوسے ایک ہزارسال تک انسانوں سمیت کسی بھی حیات کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی اس کی وجہ انسان کے ہاتھوںآنے والی تباہی ہے وہ کرہ ارض پر رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ بے رحمانہ کھیل کھیل رہا ہے یعنی جس شاخ بیٹھا ہے ۔

اس کوکاٹنے کاعزم مصمم کئے ہوئے ہے پیداوار میں اضافہ کیلئے کروڑوں کمپنیاںآلودگی پیداکررہی ہیں جو جنگل کروڑوں سال میں اْگ آئے تھے انہیں بڑی حد تک کاٹ چکا ہے بحرہند بحرالکاہل اوربحرااوقیانوس کے بڑے حصے ایٹم بموں اور ہائیڈروجن کے تجربات سے آلودہ ہوچکے ہیں دنیا کے جن حصوں میں دھماکے کئے گئے وہاں کی زمین اور پہاڑ مصنوعی موت مرچکے ہیں اور ہمیشہ کیلئے تابکاری کے اثرات باقی رہیں گے جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ کینسراوردیگرخطرناک امراض کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ جن ممالک کے پاس ایٹم اورہائیڈروجن بم بنانے کی تکنیک ہے وہاں کے لوگ ان انسان دشمن اورمہلک ترین سائنسدانوں کواوتار ولی قطب اورکوئی غیرمرئی مخلوق سمجھتے ہیں اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنس دان جس نے انسانیت کو مفید معلومات دیں انہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں ہندوستان کے ایٹم بم کے خالق کوجمہوریہ کا صدربنایاگیا ۔

جیسے انہوں نے کوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیاہوپاکستان میں کئی لوگ عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا نام دیتے ہیں حالانکہ انہوں نے ایٹم بم بنایا ہی نہیں البتہ یورنیم افروزگی کاپلانٹ ضرور لگایا ڈاکٹرعبدالقدیر اورڈاکٹرثمر مبارک مند ذاتی اخلاقی اورمالیاتی طور پر کس طرح کے لوگ ۔

ہیں یہ بات مختلف ادوار کے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں ان لوگوں نے فلاح انسانیت کے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا منو بھائی کے بقول اگریہ لوگ بھوکے عوام کیلئے زیادہ پیداوار والی فصلیں اگاتے تو ہم انکو سلام کرتے بہرحال ایٹمی ہتھیاروں اورٹیکنالوجی کے بارے میں دو رائے ہیں جو لوگ امن آشتی انسانیت کے حق میں ہلاکت خیز جنگوں کیخلاف بات کرتے ہیں نہ صرف ان کی تعداد تھوڑی ہے بلکہ انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔

مزید حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں پرایٹم بم استعمال کرانے کی حمایت کرنے اور کروڑوں انسانوں کو ہلاک کرنے کی وکالت کرنے والے لوگوں کو تعظیم اورتکریم کے لائق سمجھاجاتاہے۔مخصوص طبقہ کی نمائندگی کرنے والے نام نہاد دانشور ہارون الرشید اور یا مقبول جان اورلال ٹوپی والے زید زمان حامد کے بیانیہ کی توصیف کی جاتی ہے یہ لوگ ایک خیالی نظریہ کے تحت دنیا پرغلبہ اسلام کی تبلیغ توجیح اورتشریح کرتے نہیں تھکتے 1970کی دہائی تک یہ کام محترم الطاف حسن قریشی اوربعد میں انکے چھیلے کرتے تھے ۔

اپنے اس کام کے عوض وہ ہر طرح کے انعام اکرام اورریاستی اعزازات کے مستحق ٹھہرتے تھے آج یہ مکتبہ فکر ایک اورانداز میں ریاست پر حملہ آور ہے یہ جہادی گروپ نہ صرف پارلیمانی اور جمہوری نظام کا بدترین مخالف ہے بلکہ یہ ایک ایسی آمریت کے قیام کا خواہاں ہے جہاں انسانوں اور بنیادی حقوق کی پامالی جائز ہے۔

1980ء کی دہائی میں اس گروپ کے روحانی پیشوا حضرت جنرل ضیاء4 الحق نے امریکی ڈالروں کے ذریعے افغانستان میں جوجہاد شروع کیا وہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اس گروپ نے پہلے اسامہ بن لادن ایمن الظواہری اوربعدازاں ابوبکر بغدادی کے گن گائے اگر یہ لوگ پین اسلام ازم کے حامی ہوں تو اسے راسخ تسلیم کیاجاتا لیکن پاکستان کے اندر ان کا ایک اور نظریہ ہے۔

اس گروہ کا کہنا ہے کہ علاقایت صوبائیت اور حقوق کی طلبی غداری اور اسلام دشمنی ہے لیکن خود یہ اپنے صوبے کے بڑے علمبردار ہیں اور یہ اس کے مفادات کی خاطر فوری طور پر اپنی جیب سے حب الوطنی اورغداری کے سر ٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں آج کل یہ گروہ سی پیک کا بڑاحامی نظرآتا ہے سردست یہ لوگ امریکہ کے زبردست مخالف اور چین کے حامی ہیں حالانکہ چین اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کررہا ہے وہ مغربی ممالک اپنے جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے لیکن سنکیانگ میں جوہوا ہے انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ چین سی پیک لارہاہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے انسانوں کو مشورہ دیاکہ وہ زمین کی بجائے کسی اور سیارے کارخ کریں اس نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ فی الحال زمین پرکسی اور سیارے کی مخلوق کاخیرمقدم نہ کریں ہمارے نزدیک ہمالیہ کے اس پار جو کرہ ارض ہے وہ ایک اور سیارہ ہے اور اس کی مخلوق خلائی مخلوق جیسی ہے زمانہ قدیم میں اسے یا جوج اور ماجوج کا نام بھی دیا گیا تھا ۔

اگر یہ کسی کا مخالف ہو تو اسے کاٹ کررکھاجاتاہے اور اس کا نام ونشان تک نہیں ملتا چنانچہ تبت سے شروع ہونیوالا سلسلہ 29ہزار فٹ بلندی پرپہنچ کر جنوب کی طرف آئیگا تو ایک سونامی کی صورت اختیار کرے گا واضح رہے کہ ایک سونامی سمندروں میں برپاہوتا ہے اور ایک بلند گلشیروں کے پگھلنے کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو لوگ46ارب ڈالر ملنے کی خوشی میں اپنی خودمختاری اور خودداری کودا?پرلگارہے ہیں ان کی سادگی دیکھ کرافسوس ہورہاہے۔

فی الحال سی پیک نے جو معاشی مواقع پیدا کئے ہیں شمالی اور وسطی پاکستان کے لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ میڈیا کا طاقتور حصہ بھی اس میں شامل ہے میڈیا کا یہ حصہ کارپوریٹ میڈیا کہلاتا ہے گزشتہ ادوار میں حکومتوں نے پرنٹ میڈیا کو مختلف کیٹیگری میں تقسیم کیا میٹروپول اے اور بی ریجنل اور مفصل پریس۔

اس سے قبل ایسے اخبارات جو ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ جاتے تھے اور پڑھے جاتے تھے انہیں قومی اخبارات کہاجاتاتھا آج کل جبکہ کارپوریٹ اخبارکی تعداد کافی بڑھ چکی ہے پھر بھی یہ اپنے آپ کو قومی پریس کہتے ہیں حالانہ18ویں ترمیم کے بعد آئینی صورتحال بدل چکی ہے اب ہرصوبے کے اخبارات وہاں کے قومی اخبارات ہیں۔ 

سونے پر سہاگہ یہ کہ قومی اخبارات کہلائے جانے والے میڈیا نے اپنے ٹی وی چینل بھی قائم کئے ہیں یہ سب کچھ بے پناہ وسائل اورسرمایہ کے بل بوتے پرممکن ہوا حالانکہ یہ سرمایہ مرکزی سرکار اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے انہیں برسوں تک فراہم کیا ہے ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ جب سے چینلوں اور سوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا پر حملہ کیا ہے تو اس کے نقصانات سب سے زیادہ ریجنل اخبارات کوہوئے ہیں تمام میڈیم سائز کے اخبارات وہ اپنی سرکولیشن اور سرکاری اشتہارات سے بتدریج محروم ہورہے ہیں۔

اے پی این ایس کی رپورٹ کے مطابق نوازشریف کی حکومت کی تبدیلی کے بعد میڈیا کے تقریباً 40فیصد آمدنی کم ہوئی ہے معلوم نہیں یہ نقصان پورا کرنے یا کسی وسیع ترتناظر میں قومی اخبارات ہونے کے دعویدار کئی اخبارات نے بلوچستان پر ہلہ بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان اخبارات نے نہ صرف کوئٹہ اور گوادر سے اپنے ڈیکلریشن حاصل کئے ہیں بلکہ خضدار اورحب جیسے چھوٹے شہروں سے بھی اشاعت شروع کرنے کی اجازت حاصل کرلی ہے غالباً کسی ’’تھنک ٹینک‘‘ نے قومی میڈیا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرنے کی خاطر بلوچستان کی طرف رجوع کرے حالانکہ حکومت بلوچستان کے اشتہارات بجٹ تقریباً30کروڑ روپے ہے جو ان بڑے بڑے گروپوں کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے بلکہ اس بجٹ کا بڑاحصہ پہلے ہی اان کی جیبوں میں جارہاہے ۔

غالباً ان کا پروگرام ہے کہ بڑا حصہ کیوں پورا حصہ ان کی جیبوں میں جانا چاہئے معلوم ہے کہ ان کے پاس طاقتور ادارے ہیں حکومتی افسران کی کیا مجال جو حکم عدولی کریں بلکہ جو ان کا حکم ہوگا جوچاہئے فوری عنایت ہوگی۔لہٰذا سب سے پہلے قومی میڈیا سے گزارش ہے کہ وہ بے شک اپنی اشاعت کا آغاز کریں لیکن رضاکارانہ طور پر اعلان کریں کہ وہ صوبہ بلوچستان کے سرکاری اشتہارات طلب نہیں کریں گے ۔

اگر کارپوریٹ میڈیا کیلئے یہ ممکن نہیں تو بلوچستان حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اعلان اور وعدے کے مطابق صوبائی اسمبلی میں ایسی قانون سازی کرے کہ مقامی لوگوں کے حقوق کاتحفظ ہو اگر صوبائی حکومت اسمبلی میں قانون سازی کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو بلوچستان کی مقامی آبادی کی اقلیت میں جانے کے خدشات درست ثابت ہوجائیں گے چونکہ مقامی میڈیا بھی آبادی کا حصہ ہے لہٰذا وہ اس صورت حال سے نہ صرف متاثر ہوگی بلکہ مکمل طور پرتباہ ہوجائے گی بدقسمتی سے بلوچستان میں جو بھی حالات پیداہورہے ہیں ۔

بعض حلقوں نے پہلے اقدام کے طورپرمقامی اخبارات کوروندڈالاصوبائی وسائل کا بڑاحصہ کارپوریٹ میڈیا کو ایک پالیسی کے تحت جان بوجھ کر منتقل کرنا شروع کردیا اس ضمن میں اعدادوشمار اورطریقہ کار دیکھ کر حیرت ہوتی ہے مثال کے طور پر جھاؤ ،آواران اور واشک کے ٹینڈرنوٹس بلوچستان سے باہر کے انگریزی اخبارات کو جاری کئے جارہے ہیں جیسے جھاؤ کو لواہ اورواشک کے لوگ صرف انگریزی پڑھنا جانتے ہیں ۔

اس سلسلے میں پیپرارولز کا حوالہ دیا جاتا ہے کیا یہ رولز صرف بلوچستان کے لئے ہیں پنجاب اور سندھ پران کااطلاق نہیں ہوتا کیا کبھی پنجاب ، سندھ ،اورپشتونخوا کی حکومتوں نے ایک سینٹی میٹر اشتہاربلوچستان کے اخبارات کو دیا ہے اس پالیسی سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں اگر یہ کسی بڑے منصوبہ کاحصہ ہے تو صاحبان اقتدار اپنی جگہ درست ہیں ۔

اگر اس منصوبہ کے تحت انہیں صاف سیلٹ چاہئے تو پھر ان سے کوئی گلہ نہیں اگر وہ سی پیک کے سونامی کے ذریعے سب کچھ بہالے جاکر سمندر میں غرق کرناچاہتے ہیں تو زورآورہیں ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں اگر وہ گوادر ماسٹر پلان کے ذریعے گوادر شہرکو شنگھائی جیسا بناکر چرواہوں اورمیدوں کووہاں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں ۔

تو اسے ایسا کرگزرناچاہئے کیونکہ بلور سے بنے کسی جدید شہر میں ایسے پسماندہ لوگوں کی گنجائش تو نہیں ہوگی بے شک ساحلی پٹی کو جنوبی صوبہ کی شکل دیں مگر حب الوطنی کے تناظر میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہوگا ایسے حالات میں دوچار مقامی اخبارات کی کیا حیثیت جب بہت کچھ نہیں رہے گا تو ا ن کے نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا لیکن قدرت کا اپناایک عمل ہے جو تمام زورآوروں پرفوقیت رکھتاہے۔

بشکریہ انتخاب اور انور سا جدی