بلوچستان کے فرزند، تعلیم یافتہ نوجوان صادق سنجرانی بطور چئیرمین سینٹ انتہائی اکثریت سے منتخب ہوکرایوان بالاکیا پہنچے کہ میاں نواز شریف سمیت مسلم لیگ کے وفاقی وزراء آج تک مائی بے آب کی طرح تڑپ ہے ہیں ۔
انتخاب کے روز حکومتی وزراء جن میں سے ایک آدھ کا تعلق بلوچستان سے بھی ہے، کس طرح گرجدارآواز میں اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے بیان بازی کر رہے تھے ، وہ بلوچستان کے عوام نے خوب دیکھا۔
حالانکہ یہی وزراء سی پیک سے لے کر وفاق سے فنڈز کے اجراء میں تاخیر یا تعطل کے معاملات پر آج تک اس طرح گرجد ار آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے وفاق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کبھی اپنا حق مانگا۔
بلکہ انہوں نے حکومت میں وزیر بننے کے لئے ہرناجائز بات کی تائید کی اور صوبے کے تمام معاملات پر اپنے ووٹروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔یہ بلوچستان کے عوام کی خوش قسمتی نہیں کہ آج بلوچستان کا ایک پڑھا لکھا نوجوان چئیرمین سینٹ کے منصب پر بیٹھا ہے۔
ان کی نامزدگی سے بلوچستان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طول و عرض میں انکی حمایت میں جلوس نکالے گئے جن میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی بھر پور خوشی کا اظہار کیا جس سے بلوچستان کے مخدوش حالات پر مثبت اثرات کے مرتب ہونے کایقین ہوچلا ہے ۔
تمام تر حکومتی محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کو پس پشت ڈال کر ان کی نامزدگی کو سراہا گیا ۔
لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرکے اپنے جذبات کا کھلے عام بھرپور طریقہ سے اظہار کیا جس میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ صادق سنجرانی کا انتخاب بذات خود ایک احسن فیصلہ ہے
ان کی شخصیت ایسی تھی اور آج بھی ہے کہ ان کو حکومت کی طرف سے جو بھی ذمہ داری سونپی گئی انہوں نے اس کواحسن طریقہ سے پوراکیا۔
انہوں نے اس عہدے پر رہ کر نہ صرف بلوچستان بلکہ اپنے اور اپنے خاندان کی عزت و تکریم میں بے پناہ اضافہ کیا ۔
انہوں نے نا اہل وزیراعظم نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی دور حکومت میں بطور ایڈوائزر برائے بلوچستان امور پر جس محنت و لگن سے کام کیا وہ بھی ایک تاریخ ہے۔
انہوں نے ایک بڑے بیورو کریٹ یا سیاستدان کے طورپر اپنے دفتر اور گھر کے دروازے عوام کے لئے بند نہیں کیے بلکہ ہر وقت کھلے چھوڑے۔ جو بھی شخص کوئی مسئلہ یا مشکل بیان کرتا ،اسے ان کے دفتر اور گھر سے کبھی بھی مایوس نہیں لوٹنا پڑتا تھا۔
سب سے بڑی خوبی یہ کہ ان میں تعصب نہیں، قومیت سے ہٹ کر ان میں انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جب راقم الحروف نے یوسف رضا گیلانی دورحکومت میں ان کے دفتر جا کر ملاقات کی تو میں نے دیکھا کہ سندھ کے کئی بے روزگار نوجوان اپنے تعلیمی اسناد کے ساتھ ان کے دفتر میں موجود تھے ۔
میں نے ان نوجوانوں سے صادق سنجرانی کے بارے میں پوچھا کہ وہ اپنی پارٹی کے وزراء سے ملازمتیں مانگنے کی بجائے بلوچستان کے امور کیلئے تعینات نوجوان سے کیوں کر ملازمتیں مانگنے کے لئے آتے ہیں تو انہوں نے حلفاً کہا کہ وہ ان کی سندھ میں بھی شخصیت کے حوالے سے سن کر مجبوراً انہیں ملنے چلے آتے ہیں ان کے بارے میں انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ عوام دوست اور غریب پرور شخص ہیں ،ان کے دوازے عام عوام کے لئے کھلے رہتے ہیں ۔
ان کی شخصیت کا یہ پہلو صرف بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ سندھ کے نوجوانوں میں بھی صادق سنجرانی کی شخصیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ کہ انہوں نے عوام کے مسائل سے اور خصوصاً نوجوانوں کے مسائل سے راہ فرار اختیار نہیں کی بلکہ ان کے حل کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔
ان کی یہ عوام دوستی ان کے دور افتادہ ضلع چاغی یا پسماندہ صوبہ بلوچستان تک محدودنہ رہی بلکہ انہوں نے سندھ کے بے روزگار نوجوانوں کے لئے بھی اپنے دفتر کے دروازے کھلے رکھے اور کشمیر سے آنے والوں کو بھی مایوس نہیں لوٹایا۔
یقین جانئیے کہ انہوں نے نوجوانوں کو ملازمتوں میں کھپانے کیلئے جو کردار ادا کیا وہ ہمارے سابقہ اور موجودہ کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹر صاحبان سے بدرجہ بہتر رہا ۔
اس نوجوان میں جھوٹ اور مکاری نام کی کوئی شے نہیں ۔غلط بیانی ان سے کوسوں دور ہے، شریف النفس شخصیت کے مالک ہیں آج تک کسی مالی اسکینڈل میں ان کا نام نہیں آیا اتنے بڑے عہدے پر رہنے کے باوجود یہ نیک نامی کے ساتھ واپس اپنے گھر کو لوٹا ۔
ورنہ اسلام آباد کی مسرور کن اور پر کیف فضاؤں میں چلنے والے خو د کو اتنا بڑا فرعون سمجھتے ہیں کہ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور تو اور بلوچستان کے فرزندوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ جیسے وہ بلوچستان کا رہنے والا نہیں بلکہ اس کی پیدائش یورپ میں ہوئی ہے۔
لیکن کمال ہے اس شخص پر ‘ کہ انہوں نے اپنی درویشانہ طبیعت سے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی۔ ان کے بطور چئیرمین سینٹ انتخاب کے دن سے لے کر آج تک بلوچستان بھر میں خوشی کی جو لہر دوڑ گئی ہے اس میں ان کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
ان کی جگہ کوئی اور بلوچستان سے چئیرمین منتخب ہوتا‘ تو ان کی آمد پر خیر مقدمی جلسے و جلوس نکالے جاتے اور نہ ہی وزیراعظم خاقان عباسی کے اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ کے رد عمل میں احتجاجی جلوس برآمد ہوتے جنہوں نے گزشتہ دنوں یہ فرمایا کہ چئیرمین سینٹ کی کوئی عزت نہیں ،انہیں ووٹ خرید کر چئیرمین بنایا گیا ۔ یہ شخص سینٹ کی بے عزتی کا باعث ہے ۔
یقین جانئیے مجھ سمیت ہر بلوچستانی کو ان کلمات سے جس قدر رنج پہنچا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
ہاں یہ اندازہ لگانا انتہائی آسان ہوا کہ ہمارے وزیراعظم جو کہ ایک ہوائی کمپنی کے مالک ہیں کس”Caliber”کی شخصیت ہیں ان کی خود اپنی اٹھان کیا ہے انہوں نے اپنے خطاب میں ایسے منفی کلمات ادا کرکے نہ صرف تمام بلوچستان کی دل آزاری کی بلکہ ان حکومتی کوششوں پر بھی ایک لحاظ سے تیل چھڑک کر آگ بھڑکانے کی کوشش کی کہ ناراض بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے ملک کے حالات کو بہتر بنایا جا سکتاہے ۔
ان کلمات سے خود ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی احتسابی پوزیشن میں آگئے ہیں ان کے ووٹرز ان کلمات کو ہر گز نظر انداز نہیں کریں گے بلکہ وہ اس کا بدلہ آنے والے انتخابات میں بھرپور انداز سے لیں گے ان منفی کلمات سے بلوچستان بھر سے مذمتی بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اخبارات میں چل نکلا ہے ۔
سابق وزیراعظم اور بزرگ سیاستدان میر ظفر اللہ جمالی نے اپنی ناراض کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ وزیراعظم کو بلوچستان سے سینٹ چئیرمین منتخب ہونا ہضم نہیں ہورہا آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ ایک بار انتخابات ہوجائیں تو ان کو مسترد کرکے دوسری بار انتخابات کا مطالبہ کیاجائے وزیراعظم کا سینٹ چئیرمین کی تبدیلی بارے ایسا موقف اختیار کرنا غیر آئینی ہے جو انہیں زیب نہیں دیتا ۔
خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی منتخب وزیراعظم نہیں بلکہ بنائے گئے ہیں چونکہ سینٹ چئیرمین کا تعلق چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے اس لیے بہت سی لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے۔
وزیراعظم نے حلف اٹھایا ہے اس لیے انہیں ایسی بات نہیں کرنی چائیے تھی سندھ اوربلوچستان کو ہمیشہ اقتدار سے باہر رکھا گیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے چئیرمین سینٹ سے متعلق وزیراعظم کے بیان کو نا مناسب اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک صورت حال ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نا اہل وزیراعظم نواز شریف کا چئیرمین سینٹ کو گالیاں دینا سینٹ کی توہین ہے ۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ چئیرمین سینٹ سے متعلق بیان پر وزیراعظم کا محاسبہ ہونا چائیے، آدھی مسلم لیگ توہین عدالت کے کیسز بھگت رہی ہے معافیاں مانگتے ان کی زبان لڑ کھڑاتی ہے ٹکراؤ کی روش قومی ہم آہنگی کے خلاف ہے ۔ مشیر اقلیتی امور دنیش کمار کے بقول چئیرمین سینٹ کا عہدہ آئینی ہے ۔
وزیراعظم کی جانب سے چئیرمین سینٹ کی تبدیلی بارے بیان جمہوری روایات کے منافی ہے۔ وزیراعظم نے ایسا بیان دے کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے اس سے بلوچستان کے عوام کی دل آزاری ہوئی ہے وزیراعظم فوری طورپر معافی مانگیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چئیرمین سینٹ کا عہدہ بلوچستان کو ملا ہے سمجھ نہیں آتا جب دیگر صوبوں سے وزیراعظم‘ صدر چئیرمین سینٹ بنتے ہیں تو بلوچستان کے عوام نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیاجب بلوچستان کو پہلی مرتبہ چئیرمین سینٹ کا عہدہ ملا ‘ تووزیراعظم کی جانب سے بیان دینا جمہوری روایات کے منافی ہے ۔
یہاں پر ہمارے ہر دلعزیز اور نواجون وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خیالات بھی بیان کرنا ضروری ہے انہوں نے لاہور میں اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا چےئرمین سینٹ کے بارے میں بیانات نا مناسب ہیں نیز سینٹ چئیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتمادلانے والے اپنا شوق پورا کر لیں۔ چئیرمین سینٹ کا الیکشن جمہوری انداز میں سب کے سامنے ہوا لیکن سیاست کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جیت جائیں تو ٹھیک ہے ہار جانے پر سب کچھ غلط نظر آتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے آج تک بلوچستان کا دورہ نہیں کیا، نواز شریف اور شہباز شریف کے رویے سے بلوچستان کے لوگ نالاں ہیں جبکہ ن لیگ کی لیڈر شپ کو بلوچستان نے واضح پیغام دیا ہے۔
ن لیگ کو سوچنا چائیے کہ بلوچستان کے لوگ ان سے دور کیوں ہیں؟ ن لیگ میں اب بھی بادشاہت قائم ہے انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ۔کوئٹہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز قبائلی ر ہنماؤں سردار داؤد سنجرانی ‘ میر عاصم سنجرانی ‘ حاجی شمس الدین رند ‘ یاسین کاکڑ ‘ اور دیگر نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے چئیرمین سینٹ کے بارے میں کلمات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کو چئیرمین سینٹ کا عہدہ ملا جس پر صوبے کے عوام پیپلزپارٹی ‘ تحریک انصاف ‘ اراکین فاٹا سمیت ایم کیو ایم و دیگر سیاسی جماعتوں کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے چئیرمین سینٹ کے بارے میں کہے گئے نا مناسب الفاظ سے صوبے سمیت ملک بھرکے عوام کی دل آزاری ہوئی ہے جس کی ہم سیاسی و قبائلی معتربین شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔