کوئٹہ: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں تعلیم، صحت اور پانی کے مسائل پر از خود نوٹس کیس کے دوران بلوچستان کے سابق وزراء اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور ثناء اللہ زہری کوکل عدالت میں طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے عوامی مسائل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چار سال تک بلوچستان میں حکومت کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے تعلیم، صحت اور پانی سمیت بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے کیا کیا۔آئین کے آرٹیکل184اور199کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا حق حاصل ہے۔ بلوچستان کے لوگوں سے ان کا آئینی اور قانونی حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
وکلاء صوبے کے مسائل سے متعلق آئینی درخواستیں عدالت میں لائیں عدالت بلوچستان کے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دلانے میں بھر پور کردار ادا کرے گی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ دو ماہ قبل ہی حکومت ملی ہے،وسائل اور وقت کم ہے پھر بھی بنیادی مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں از خود نوٹسز کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف سیکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق، ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات نصیب اللہ بازئی، صوبائی سیکریٹری تعلیم نور الحق بلوچ، صوبائی سیکریٹری صحت صالح ناصر، کوئٹہ کے دس سے زائد سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رؤف عطاء، سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر وکلاء کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، نصیب اللہ ترین ، ہادی شکیل اور دیگر بھی پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے صوبائی حکومت سے پانی ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اب تک اٹھائے گئے اقدامات اور مستقبل کے پلان سے متعلق تفصیلات بھی طلب کرلی۔ تعلیم، صحت اور پانی کے مسائل پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے، صحت کے شعبے میں وفاق سے جو مدد چاہیے ہمیں بتائیں، ماضی میں کیا ہوا اس کو چھوڑیں اور دیکھیں آگے کیا کرنا ہے، اب لوگوں کو حقوق دینا ہوں گے ۔
ہم یہاں اکھاڑ پچھاڑ کرنے نہیں آئے ، معاملات کو درست کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر کہا کہ صوبے کے دس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ آئین کے آرٹیکل25اے کے تحت تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ کیا اسکول سے باہر لاکھوں بچوں کی تعلیم کیلئے کوئی پالیسی موجود نہیں۔ کیا غلطیوں کو درست نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کوئٹہ اور بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح ایک ہزار فٹ سے نیچے گرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سے پوچھا کہ زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ کتنے ڈیمز بنائے گئے ہیں۔
بلوچستان اتنا بڑا صوبہ ہے ، یہاں اتنے معدنیات اور وسائل بھی ہیں پھر بھی بلوچستان کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق کی فراہمی کے منصوبوں میں وفاق سے فنڈز کی فراہمی کا کوئی مسئلہ ہے تو عدالت ہرممکن مدد کیلئے تیار ہے۔ ہم نے کراچی میں بھی پانی کے مسئلے پر وفاق سے فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ حل کرایا۔
تفصیلات کے مطابق پیر کی صبح چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نجی میڈیکل کالجوں کی فیسوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی۔ عدالت کے استفسار پر سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ میڈیکل کالج نہیں ہے۔ ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیر انتظام ہے۔ حکومت تین نئے سرکاری میڈیکل کالجز کا جلد آغاز کرنے جارہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے نجی کالجز سے کیس شروع کیا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کیلئے مسائل پیدا نہیں کرنے۔ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ میڈیکل کالجز میں کاروبار تو نہیں چل رہا۔ بچوں سے 20 سے 25 لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل کالج کیلئے 8 لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس واپس ریفنڈ کی جائے۔
حکومتی اسپتال کی حالت زار کیسی ہے ہم نے اس کے حوالے سے بھی ایس او پی دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں کچھ اسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا۔ بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور صحت میں کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے کہا کہ ہمارے ہاں گورنس، معیار، نفری کی کمی اور انتظامی مسائل ہیں۔
تعلیم اور صحت کیلئے وسائل کا بہت بڑا مسئلہ ہے، ضروریات کے مطابق فنڈز موجود نہیں۔ چیف سیکریٹری اورنگزیب حق نے عدالت کو مزید بتایا کہ تعلیم کے شعبے میں گورننس کے مسائل ٹریڈ یونینز کی وجہ سے ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلوچستان بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود یہ ہڑتال کیسے کررہے ہیں، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھ رہاہے؟۔ اس موقع پر سیکریٹری صحت صالح ناصر نے عدالت کو بتایا کہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہا ہے۔ صحت کا 21 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی مد میں خرچ ہوتا ہے اور صرف 6 فیصد ترقیاتی مد میں خرچ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نآر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صحت،تعلیم اور پانی کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ عام آدمی کو سستا اور بہت علاج میسر ہو۔چیف سیکریٹری بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں میں سہولیات نہیں ہیں۔ ڈاکٹر کی مستقل تعیناتی سے متعلق مسائل درپیش ہیں۔ صحت کیلئے قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔
جو پالیسی ہے وہ صرف لفاظی ہے حقیقت میں کچھ نہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد وسائل تو صوبوں نے پیدا کرنے ہیں ۔آپ اب بھی وفاق کو دیکھ رہے ہیں۔ گورننس کا معاملہ بھی آپ نے دیکھنا ہے۔ چیف سیکریٹری نے کہاکہ فنڈز کی کمی کے باعث ڈاکٹرز کی کمی اور ادویات کی قلت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ بعض معاملات نیب کی وجہ سے بھی تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے عدالت میں موجود سرکاری افسران سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب جب آپ حکومت پر تکیہ کررہے ہیں تو کیوں نہ انکو بلالیا جائے جو عوامی نمائندے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا کہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے آپ لوگوں نے کوئی حل تلاش کیا ہے۔ سیکریٹری صحت نے بتایا کہ ہم نے صحت پالیسی بنائی ہے جو اگلے ہفتے تک منظور ہوجائے گی۔
چیف جسٹس کے اس موقع پر ریمارکس تھے کہ جب عدالت آتی ہے تو اس طرح کی کئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بلائیں ان وزرائے اعلیٰ کو جو یہاں چار سال اقتدار میں بیٹھے رہے ، صوبے کیلئے انہوں نے کیا کیا؟۔تین وزراء اعلیٰ آئے گورننس کیلئے انہوں نے کیا کیا۔ اس موقع پر جسٹس سید منصور علی خان نے کہا کہ صحت پالیسی تو پہلے بھی ہوگی۔
سیکریٹری صحت صالح ناصر نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پہلے پالیسی موجود نہیں تھی،اب پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے امید ہے کہ کابینہ دس دنوں میں اس کی منظوری دے دیگی ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جو باتیں آپ یہاں کہہ رہے ہیں اس کو پورا کرسکیں گے۔ چیف سیکریٹری تجربہ کار آدمی ہیں آپ ان کے ساتھ مشاورت کریں۔ صحت کا مسئلہ بلا بن گیا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ 500 ارب ایک دن میں مل جائیں۔ اس کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے طور پر نہ لیں۔
اپنی خامیوں کو دور کرنے کیلئے قلیل اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کئی بار واضح طور پر کہہ چکے ہیں یہ بھول جائیں کہ پیچھے کیا ہوا، آگے کی طرف دیکھیں اور مسئلہ حل کریں۔ ہم یہاں اکھاڑنے پچھاڑنے کیلئے نہیں بیٹھے۔ کابینہ اور عوامی نمائندوں کے پاس بمشکل دو ہفتے رہ گئے ہیں پھر کون صحت کی پالیسی کی منظوری دے گا۔ کیا بلوچستان اسی طرح بے یارومددگار رہے گا؟۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے پوچھا کیا کہ آپ کو پتہ ہے سول ہسپتال میں کتنے وینٹی لیٹر ہیں، کتنے آئی سی یوز کام کررہے ہیں،کیوں چیزوں کو ٹھیک نہیں کیا جاتا، اسپتال کی حالت قابلِ رحم ہے۔ زندگی کے حق سے دوسرا بڑا کوئی حق نہیں ہے۔
زندگی قدرت کی طرف سے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ آئین ہمیں پابند بناتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہی ملک کو چالنا ہے۔ ہم وہاں مداخلت کرتے ہیں جہاں لوگوں کی بنیادی حقوق کی بات آتی ہے۔ آئین کی شق 184 اور 199 کے تحت عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کو بنیادی انسانی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔
منظوری اور عملدرآمد تک پالیسی صرف ایک کاغذ ہے۔ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھ رہا ہے۔ اتنا بڑا صوبہ ہے ، اتنے اچھے لوگ ہیں اور اتنے معدنیات اور وسائل ہیں تو پھر کیوں بلوچستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے مسائل کے حل کیلئے ہم روانہ سماعت کرنے کو تیار ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک صوبہ کوئی ہیلتھ پالیسی نہیں رکھتا یہ خطرناک بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق سے اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتائیں۔ ہم نے کراچی میں پانی کے مسئلے پر نوٹس لیا۔ ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دئے اور مسئلہ حل ہو گیا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ موافق پالیسی ہے، آپ پورے صوبے کے انتظامی سربراہ ہیں، آپ عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ دس دنوں میں کابینہ سے پالیسی منظور ہوجائے گی؟۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ وہ اپنے طور پر ہرممکن کوشش کرینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آپ ایک عمومی بیان دے رہے ہیں۔ آپ کو عدالت کو یقین دہانی کرانا ہوگی۔ ہمیں اس پر نتائج چائیے، جائیں وزیر اعلیٰ اور انکی کابینہ سے بات کریں۔ ویسے بھی کابینہ کی مدت بہت کم رہ گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو بلائیں کہ آکر عدالت کو تعلیم، صحت اور پانی کے مسائل پر بتائیں۔
اس موقع پر چیف سیکریٹری نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وقفہ لیا۔ اس دوران چیف سیکریٹری اور دیگر حکام نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے رابطہ کرکے وزیراعلیٰ کو عدالتی حکم سے آگاہ کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، صوبائی وزیر صحت عبدالماجد ابڑو ،صوبائی وزیر تعلیم طاہر محمود خان اور دیگر حکام کے ہمراہ سماعت سے قبل ہی کمرہ عدالت پہنچ گئے۔
ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ تشریف لے آئے ہیں ؟ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو رسٹروم پر آئے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کو زحمت دی۔ ہم نے تعلیم، صحت اور پانی کے مسائل پر از خود نوٹس لیا ہے جو عوام کے بنیادی حقوق ہیں۔
آپ صوبے کے وزیراعلیٰ اور ایک سیاسی رہنماء کی حیثیت سے عوام کے بنیادی حقوق کا علم ہوگا۔ آئین کی شق 25اے کے تحت تعلیم کو ایک بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں صحت سے متعلق صورتحال اچھی نہیں ہے۔ پانی اور تعلیم سے متعلق بھی مسائل موجود ہیں، یہ سب کس نے حل کرنے ہیں؟۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے جواب دیا کہ ہمیں دو ماہ قبل ہی حکومت ملی ہے اور بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ ہم عوامی مفاد کے مسائل کے حل پر توجہ دے رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں کچھ کمی بیشی ہے لیکن خامیوں اور سہولیات کی کمی کو دور کررہے ہیں۔
چند روز قبل بھی سول ہسپتال کا رات ایک بجے اچانک دورہ کیا اور غیرحاضر عملے کو معطل کرکے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو تبدیل کیا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے لیکن بجٹ کا حجم بہت کم ہے۔ ہم نے صحت سے متعلق پالیسی بھی جلد بنالیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحت پالیسی کو کب تک منظور کرلینگے۔
وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ آج بھی کابینہ کا اجلاس ہے اور پیر کو بھی اجلاس ہے۔ پہلے تو کابینہ کے اجلاس ہی کئی کئی مہینوں تک نہیں ہوتے تھے۔ ہم ان اجلاسوں میں اس پالیسی پر غور کرینگے اور تعلیم کے شعبے پر بھی ہم توجہ دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ بلوچستان میں کتنے سرکاری اسکول ہیں۔ سیکریٹری تعلیم نور الحق بلوچ نے اس موقع پر بتایا کہ بلوچستان میں کل 13611 سرکاری اسکول ہیں جن میں 11351 پرائمری ،1293 مڈل اور 955 ہائی اسکول ہیں۔
ان اسکولوں میں کل 8لاکھ 99ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔سیکریٹری تعلیم نے بتایا کہ 26لاکھ بچوں کو اسکولوں میں ہونا چاہیے۔ نجی اسکولوں اور مدرسوں کے اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں ہیں لیکن سرکاری، نجی اور مدرسوں کو ملاکر کل 16لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں اور دس لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پھر ان بچوں کو تعلیم دلانے کی ذمہ داری کون پورا کرے گا؟۔ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری تعلیم صاحب آئین کی شق 25 اے پڑھیں جس میں لکھا ہے کہ بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسکولوں سے باہر دس لاکھ بچوں کیلئے کوئی پالیسی بنائی ہے۔ سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ ہم بچوں کو مفت کتب اور دیگر سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
گورننس کے مسائل کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بچوں سے متعلق پوچھ رہے ہیں اور آپ کیا بتارہے ہیں۔ سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ تعلیم کے سیکٹر پلان کے 30فیصد اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ ہم ساٹھ ارب روپے کے مختلف منصوبے بنارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے ساتھ بھی ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت نیا سیکٹر پلان بنایا جارہا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا بلوچستان بھر کے سرکاری اسکولوں میں ایک ہی نصاب ،معیار اور طریقہ تعلیم رائج ہے۔ سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ تمام سرکاری سکولوں میں ایک ہی نصاب پڑھایا جارہا ہے۔
اس موقع پر اساتذہ کی تنظیم کے رہنماء خیر محمد شاہین نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اسکولوں میں ایک طرح کا یونیفارم رائج نہیں اور کتابوں میں بھی سنگین غلطیاں موجود ہیں اس کا نوٹس لیا جائے۔
جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ نوٹس تو لیا ہے اور کیا کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیاں ہوتی ہیں ان کو درست کیا جاسکتا ہے۔ خیر محمد شاہین نے کہا کہ وہ سول سوسائٹی کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں آپ ہسپتالوں کے دورے کیوں کرتے ہیں، حکومت کچھ نہیں کرتی تو عدالت ان معاملات کو دیکھتی ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں۔
اس موقع پر وزیر تعلیم طاہر محمود نے خیر محمد شاہین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ خود ہڑتال کرتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینئر وکیل کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ شیخ زید ہسپتال کے ایک ارب روپے وفاق کے پاس پڑھے ہیں لیکن وہ فنڈز جاری نہیں کررہا۔ اسی طرح بلوچستان اور فاٹا کے 150 طلباء کے ملک کے دیگر سرکاری میڈیکل کالجوں میں اسکالر شپ پر داخلے بھی روک دیئے گئے ہیں۔
پی ایم ڈی سی کے سابق سربراہ شبیر لہڑی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے یہ اسکالر شپ منظور کرائی تھی لیکن اب میڈیک کالجز بلوچستان کے 100 اور فاٹا کے 50 طلباء کو داخلے نہیں دے رہے جس سے ان طلباء کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔
پی ایم ڈی سی کے سابق سربراہ شبیر لہڑی نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او کیلئے بلوچستان اور فاٹا کے لئے ہر کالج میں تین تین نشستیں رکھی تھیں جن کی منظوری بھی ہوگئیں لیکن میڈیکل کالجز نے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے کامران مرتضیٰ کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر الگ سے عدالت میں درخواست دائر کریں۔ بچوں سے کیوں تعلیم کا حق چھینا جارہا ہے۔
بلوچستان اور فاٹا پسماندہ علاقے ہیں اگر یہاں میڈیکل کالجز نہیں ہیں تو باقی صوبوں میں انہیں داخلے ملنے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے موجودہ سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا کہ آپ کے دور میں یہ خامیاں سامنے آرہی ہیں۔
آپ کو اس کی وضاحت کرنا پڑے گی۔ اس موقع پر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کوئٹہ کنٹونمنٹ بورڈ نے کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آنے والے نجی اسکولوں کو خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے جس سے ان اسکولوں میں زیر تعلیم پندرہ ہزار طلباء کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
اسکولوں کی انتظامیہ کو وقت بھی نہیں دیا جارہا کہ وہ متبادل جگہ کا بندوبست کریں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کہاں ہے؟۔ سینئر وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی نشستیں خالی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے، آپ کے ہر مسئلے کو ہم نے فوری حل کیا ہے اور اس میں پانچ منٹ کی تاخیر بھی نہیں کی،کبھی یہ نہیں کہا کہ اس مسئلے کو کل یا پرسوں سنیں گے۔ بار کے مطالبات پر فوری عملدرآمد کیا ہے،اس مسئلے کو بھی جلد حل کردینگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال کے فنڈز، بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے ملک کے دیگر میڈیکل کالجوں اور کنٹورنمنٹ بورڈ سے متعلق الگ درخواستیں عدالت میں لائی جائیں۔ چیزیں بلیک اینڈ وائٹ میں پوری تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو بلوچستان کے لوگوں کا آئینی اور قانونی حق ہے وہ ان کوئی نہیں چھین سکتا۔
ان معاملات پر عدالت میں درخواستیں لائی جائیں ،عدالت اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیاکہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرز کو ایف سی پی ایس پڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بھی درخواست کا حصہ بناکر لائیں،چار دن میں حق دلائیں گے۔ آپ کو تھوڑی زحمت کرنا پڑے گی ایک ایک دن کیلئے اسلام آباد آنا پڑے گا، ہم ان تمام مسائل کو بغور سنیں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پانی کی قلت کے مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب آپ نے لوگوں کو پانی دینا ہے، ہنہ جھیل بھی خشک ہوگئی ہے،آپ کیا کررہے ہیں؟۔
عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں سے خشک سالی ہے، ہم پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،ڈیمزبنارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ پانی کی زیر زمین سطح ایک ہزار فٹ تک نیچے چلی گئی ہے اور گراؤنڈ واٹر رولز پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم قانون بنارہے ہیں،کوئٹہ اور پشین میں جہاں پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے ہیں پرائیو ٹ ٹیوب ویلز کو بند کرینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس تو وقت بہت کم ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم ڈیمز بنارہے ہیں، کوئٹہ کے اطراف میں مانگی ڈیم کی تعمیر کے منصوبے پر کام چل رہا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس پر تو ہائی کورٹ میں کیس لگا ہوا ہے اس کا کیا مسئلہ ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات نصیب اللہ بازئی نے عدالت کو بتایا کہ مانگی ڈیم کی تعمیرپر کام ہورہا ہے لیکن وفاق کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ڈیم تو بارہ سال پہلے منظور ہوا تھا اورہائیکورٹ کے حکم پر ہی اس پر کام شروع ہوا۔یہ ڈیم کوئٹہ کی صرف پچیس فیصد پانی کی ضرورت پورا کرے گا اور کتنے ڈیمز بنائے جارہے ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ کوئٹہ کو ساٹھ ملین گیلن پانی روزانہ ضرورت ہے جس میں تیرہ ملین گیلن پانی اس وقت روزانہ مل رہا ہے۔
مانگی ڈیم منصوبے سے آٹھ ملین گیلن پانی روزانہ ملے گا۔ ہم بابر کچھ، برج عزیز خان اور دیگر منصوبوں پر کام کررہے ہیں،ان ککے پی سی ون بن رہے ہیں جلد ان کی منظوری بھی دے دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس تو وقت ہی نہیں لے تو پھر لوگوں کو پانی کون دے گا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ہم واٹر مینجمنٹ شیڈ کے ایک ارب روپے کے منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں جس کا پی سی ون ایک ہفتے میں بن جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص جغرافیہ ، خشک سالی اور بارشوں کی کمی کے باعث ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ 150 سالوں میں 33 بار خشک سالی آئی ہے۔ ناڑی بیسن پر 33ارب روپے کے ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں جس سے تیرہ اضلاع کو پانی ملے گا۔
اس کے علاوہ ایشین بینک کی مدد سے دریائے مولہ اور دریائے ژوب پر پانی کے 6ارب روپے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ اس کے علاوہ واٹر اتھارٹی بھی بنارہے ہیں۔ 1997 کے واٹر ایکٹ پر عملدرآمد میں مجسٹریٹ کے اختیارات سے متعلق مسائل درپیش ہیں۔ ہم مجسٹریٹ کے اختیارات دیتے ہیں تو توہین عدالت کا کیس بنتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کو درخواست دیں ،وہ آپ کی مدد کرینگے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے سندھ میں بھی مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ قانون بنائیں ہم یہاں آپ کے مسائل حل کرنے آئے ہیں۔ پیچھے کیا ہوا اس کو چھوڑیں لیکن آگے معاملات کو درست کرنا ہے اور لوگوں کو حقوق دینے ہیں۔ پانی کی قلت کے مسئلے پر پلان بناکر اسلام آباد آئیں۔ ہم مدد کرینگے۔
اس موقع پر بلوچستان ہائی کورٹ بار کے رہنماء نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ زرعی مقصد کیلئے ٹیوب ویلز کی تنصب پر پابندی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر کیوں عملدرآمد نہیں ہورہا۔ نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عملدرآمد کاکام انتظامیہ کا ہے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔
پاکستان دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کے خطرے سے دو چار ہے۔ ہم نے وفاقی حکومت کو بھی تجویز دی ہیں۔ وفاقی حکومت نے واٹر پالیسی تیار کی ہے ہم نے بھی اس میں تجویز دی ہیں کہ پانی کی قیمت مقرر کی جائے تب ہی لوگ اس کے استعمال میں احتیاط کرینگے۔
پانی کے بحران کے پیش نظر سیکٹورل اپروچ کو ختم کرنا ہوگی ،سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ ہم بلوچستان میں بھی واٹر پالیسی بنارہے ہیں جس میں سپلائی ، ری سائیکلنگ سمیت مستقبل سے متعلق منصوبے شامل ہوں گے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کوئٹہ کا سیوریج پانی کہاں جارہا ہے؟۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہم نے سیوریج کے پانی کو زیر استعمال لانے کیلئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے ہیں لیکن بد قسمتی سے وہ بند ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں ہم یہ کام کرکے آئے ہیں وہاں ٹریٹمنٹ پلانٹ چالو کردیئے ہیں۔ سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت بیماری کا سبب بن رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے حکومت سنبھالتے ہی 1100ایکڑ اراضی پر گندے پانی سے سبزی کی کاشت کو بند کیا۔ اس سے پہلے گندے پانی سے سبزیاں کاشت ہورہی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زہری صاحب اور ڈاکٹر مالک صاحب نے چار سالوں میں پانی کے مسئلے کے حل کیلئے کیا کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے دونوں سابق وزراء اعلیٰ منگل کی صبح عدالت میں پیش ہوکر بتائیں کہ انہوں نے چار سالوں تک بلوچستان میں پانی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی عوامی مسائل کے حل کیلئے کیا کیا؟۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ٹیچر یونین کے خیر محمد شاہین کی جانب سے خود کو سول سوسائٹی کا نمائندہ کہنے پر برہمی کا اظہار کیا کہ ہم یہاں خود نمائی کرنے والے کو عوام کا نمائندہ نہیں مانتے۔ عوام کے نمائندے ہم ہیں اور بار کے وکلاء ہیں، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔
چیف جسٹس نے بلوچستان حکومت سے پانی، صحت اور تعلیم کے مسائل پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے بتایا کہ عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق مسائل اور ان کے حل سے متعلق تفصیلی رپورٹ اور پلان عدالت میں پیش کریں کہ مستقبل میں ان مسائل کے حل کیلئے وہ کیا کیا اقدامات کرینگے۔
بلوچستان میں تعلیم ، صحت اور پانی از خود نوٹسز ،ڈاکٹر مالک اور نواب زہری طلب ،بتائیں چار سال میں کیا کام کئے، چیف جسٹس
وقتِ اشاعت : April 9 – 2018