امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر کیمیائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے جواب دینے کے بارے میں پیر کی رات تک اہم اور حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کے مطابق پیر کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ فوجی کمانڈروں سے صلح و مشورہ کر رہے ہیں اور اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے، بشار الاسد، روس یا پھر ایران۔
اسی دوران روس کی طرف سے سامنے والے بیان میں کہا گیا ہے دوما میں کسی قسم کے کیمیائی حملے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
طبی ذارئع کے مطابق اس حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کی حتمی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ماہرین اور امدادی کارکنوں نے باغیوں کے علاقے سے نکل جانے کے بعد وہاں کا دورہ کیا ہے اور انھیں کیمیائی حملے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔
امریکہ اور فرانس نے اس حملے پر بھرپور جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
دریں اثنا امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام میں زہریلی گیس کے حملے کی تحقیقات شروع کروانے کے لیے نئی کوشش کی۔
امریکہ نے پیر کو سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ملکوں میں ایک نظر ثانی شدہ قرار داد کا مسودہ تقسیم کیا۔ یکم مارچ کو بھی امریکہ نے ایک مسودہ پیش کیا تھا۔ ہفتے کو دوما پر ہونے والے حملے کے بعد امریکی صدر نے ایک بیان میں شام میں کیمیائی حملے کو ایک گھنونا جرم قرار دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اس کے ذمہ داراں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
نئی قرار داد کے مسودے کے بارے میں سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اگر اسے ووٹ کے لیے پیش کیا گیا تو شام کا اتحادی روس اس کو ویٹو کر دے گا۔ سلامتی کونسل میں کسی قرار داد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں اور یہ اسی صورت منظور ہوتی ہے اگر کونسل کے مستقل رکن ملکوں روس، چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اسے ویٹو نہ کیا جائے۔
شام کی حکومت اور اس کے اتحادی روس نے اس حملے میں ملوث ہونے کےالزام کو مسترد کر دیا ہے۔
اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے سلامتی کونسل کے رکن ملکوں پر شام میں ہونے کیمیائی حملے کی کمزور سے الفاظ میں مذمت کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پر زیادہ سخت رد عمل ظاہر کرنے میں ناکامی کے آنے والی دہائیوں میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
دوسری طرف برطانوی وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے امریکہ اور برطانیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ حالیہ کیمیائی حملے اور ماضی میں شام میں ہونے والے حملوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔
برطانوی وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ بیان برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اور قائمقام امریکی وزیر خارجہ جان سولیون کے بعد جاری کیا گیا۔