|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2014

سندھ اور بلوچستان فرقہ واریت کے زبردست ٹارگٹ ہیں ۔گزشتہ سال بلوچستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر 33حملے ہوئے جن میں 278افراد ہلاک اور 499زخمی ہوئے۔ سندھ میں 132حملے ہوئے جن میں 215ہلاک ا ور 319زخمی ہوئے۔ کے پی کے اور فاٹا میں 26حملے ہوئے جن میں 133ہلاک ہوئے 348زخمی ہوئے جبکہ پنجاب میں 17حملے ہوئے اور ان میں 32لوگ ہلاک اور 29زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ فرقہ واریت اور خصوصاً لشکر جھنگوی کا ہیڈ کوارٹر اور شیعہ دشمن دہشت گرد تنظیموں کا مرکز پنجاب ہے جہاں پر کم سے کم اموات ہوئیں ۔دوسرے الفاظ میں فرقہ واریت کو دوسرے صوبوں میں برآمد کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے مسلح دہشت گرد تنظیموں کو احکامات مرکز سے ہی آتے ہوں گے۔ کے پی کے اور فاٹا میں ایک سیاسی تنازعہ بھی ہے۔ افغانستان پر حملے کے بعد افغان مجاہدین اور ان کے اتحادیوں نے یہ کوشش کی کہ پارا چنار کے راستہ کو استعمال کرکے کابل اور وسطی افغانستان پر گوریلا حملے کیے جائیں۔ جب مقامی آبادی نے انکار کیا تو ان پر جنگ مسلط کردی گئی جو آج تک سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں جاری ہے۔ مگر سندھ اور بلوچستان میں اس قسم کا کوئی سیاسی تنازعہ تھا ہی نہیں۔ بلوچ اور سندھی سوسائٹی آزاد خیال اور جمہوری سماج ہیں جہاں پر فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان دونوں سماج میں کہیں دور دور تک فرقہ واریت کا تصور بھی نہیں ہے۔ مگر خفیہ ہاتھوں نے ان ہی دونوں صوبوں کو فرقہ وارانہ جنگ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ غالباً اس کی سیاسی وجوہات ضرور ہوں گی ورنہ بلوچ اور سندھی عوام سیکولر ہیں۔ جنرل ضیا ء کے احترام رمضان آرڈر سے پہلے پورے سندھ میں رمضان اور روزے کا گمان نہیں ہوتا تھا اور تمام ہوٹل بغیر پردے کے لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ جنرل ضیاء کے آسمانی حکم سے اور فوجی قوت سے زبردستی احترام رمضان آرڈر پر عمل درآمد کرایا گیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کوئی بلوچ اور سندھی اس بات کو سوچ ہی نہیں سکتا ہے کہ وہ کسی کو فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل کرے۔ ایک سرکاری نکتہ نظر حال ہی میں سامنے آیا ہے کہ پاکستان دشمن خفیہ ادارے اور ممالک فرقہ واریت کی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہی ممالک نے ایجنٹ بھرتی کرلئے ہیں اور ان کے ذریعے شیعہ سنی فساد پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا واحد مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ دشمن ممالک، امریکہ کی سربراہی میں پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ یہ دباؤ پاکستان کی حکومت پر ڈال سکے کہ خانہ جنگی کی صورت میں ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اس لیے ان کو امریکہ کی تحویل میں دیا جائے اور اس طرح سے پاکستان سے ایٹمی ہتھیار چھین لے جائیں۔ بہر حال یہ ایک سرکاری نکتہ نظر ہے اور اکثر سرکاری اہلکار فرقہ وارانہ وارداتوں کے لیے یہ جواز پیش کرتے ہیں۔ مگر اگر ستم رسیدہ لوگ حکومت اور سرکاری اہلکاروں کو اس قتل عام کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔