بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے وزارت اعلیٰ کا منصب کیا سنبھالا ‘ کہ ان کے خلاف ان کے حاصل کردہ 544ووٹ طعنہ بن گئے ۔موجودہ اورسابق وزیراعظم نواز شریف سمیت ہر مخالف شخص نے آستین چڑھا کر بولنا شروع کردیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کن حالات کے تحت وزیراعلیٰ بنے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے بلکہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری میں سابق وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی پر نہ صرف سوالات اٹھا دئیے بلکہ انہوں نے چند مہینوں میں بلوچستان کے دیرینہ مسائل ‘ وفاق کے منفی رویے اور بلوچستان کے عوام کے حقیقی مسائل پر جس طرح بھرپور توجہ دی اور لوگوں میں نہ صرف اپنی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کی قدرو منزلت میں جس طرح اضافہ دیکھنے میں آیا وہ ان کے پیشرؤں کو نصیب نہ ہوسکا ۔
انہوں نے آتے ہی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں کھلی کچہری لگانے کا جو سلسلہ شروع کیا اس کے بڑے مثبت اثرات ہماری سوسائٹی میں دیکھنے کو ملے۔ یقین جانیئے کہ انہوں نے اب تک سینکڑوں لوگوں کی داد رسی کر کے نہ صرف ان کی مالی مشکلا ت کا خاتمہ کیا بلکہ نوجوانوں کی بڑی تعدادکو ان کے ہونے والے ٹیسٹ اور انٹر ویو زکی روشنی میں ملازمتیں دے کر غریب لوگوں کی دعائیں لیں ۔
جمعہ کے روز وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہونے والی کھلی کچہری میں ان کی ٹیم میں شامل وزراء نے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور غریبوں ‘ مسکینوں خصوصاً خواتین کے مسائل کو نہ صرف سنا بلکہ ان کے حل کے لئے اپنے اختیارات کا بھر پور استعمال کیا۔
یہ سلسلہ سالوں بعد دیکھنے کو ملا ،لوگوں نے محسوس کیا کہ نواب بگٹی اور سردار اختر مینگل کے بعد آج تک کسی وزیراعلیٰ کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان عوامی مسائل کے حل کے لئے کھلی کچہری لگاتے اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے گیٹ عام آدمی کے لئے کھلے رکھتے ۔
اس کا کریڈیٹ یقیناً میر قدوس بزنجو اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے کہ انہوں نے یہ نیک کام کرکے اپنی چند مہینوں پر محیط وزارت اعلیٰ میں نہ صرف غریب عوام کی دعائیں لیں بلکہ اپنی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں کے مسلسل دورے کیے ۔
مسائل کا جائزہ لیا سول اسپتال اور تھانوں کا اچانک دورہ کرکے عوام سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے احکامات دے کر ان پر عمل درآمد کروا کراپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے مختلف بازاروں کے دورے کے دوران لوگوں نے انہیں اپنے بیچ پا کر ان کے حق میں ’’ زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کرکے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔
ِ ان کے یہ دورے یقیناً کسی نمائش یا خودنمائی کے لئے ہرگز نہ تھے بلکہ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ خود کوئی نواب اور سردارنہیں ‘ بلکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور عوام کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں ۔اس طرح انہوں نے صوبے کی سطح پر ان مسائل کے حل کے لیے انتہائی ایمانداری کا مظاہرہ کیا۔
جہاں تک ان کے 544ووٹوں کا تعلق ہے ان کے یہ ووٹ ان کے بطور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی طعنہ کا سبب نہیں بنے جب صوبے میں نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومتیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں قائم کی گئیں۔
یہ حکومتیں بلوچستان میں بیٹھ کر نہیں بنائی گئیں ’ بلکہ ان کے فیصلے ’’ جاتی امراء لاہور رائے ونڈ اور مری ‘‘ میں ہوئے اور ڈھائی ڈھائی سال کے لئے وزارت اعلیٰ کا منصب تقسیم کیا گیا ۔ اس وقت میر عبدالقدوس بزنجو اپنے 544ووٹوں کے ساتھ ان جماعتوں کو بطور ڈپٹی اسپیکر قابل قبول رہے ۔ اب جب وزارت اعلیٰ کا قرعہ فال ان کے نام نکل آیا تو یہ ووٹ ان کے لئے بطور طعنہ استعمال کیے جانے لگے۔
بلوچستان میں نواب بگٹی کی شہادت کے بعد صوبہ بھر میں جس طرح آگ بھڑک اٹھی تھی اس سے بلوچستان بھر کے عوام بخوبی آگاہ ہیں، نا مساعد حالات کے تحت انتخابات کرادئیے گئے ۔ میر عبدالقدوس بزنجو کو ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جوبھاری قیمت چکانا پڑی وہ بخوبی عوام کے علم میں ہے۔
ان کے حلقہ میں کوئی شخص ووٹ دینے کے لئے گھروں سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں تھا کیونکہ ووٹ دینے کا مطلب ان کی موت تھی ۔فائرنگ اور دھماکوں سے ان کا حلقہ انتخاب محفوظ نہ تھا اس کے باوجود انہوں نے اپنے ووٹر سے ناطہ نہیں توڑا انہوں نے اس طرح کم ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ۔
اب اس کم ووٹ لینے والے وزیراعلیٰ کی دیگر بھاری بھر کم ووٹ لینے والے ’’ وزرائے اعلیٰ‘‘ کی کارکردگی سے تقابلی جائزہ لیں، کم تجربہ رکھنے کے باوجود انہوں نے ‘‘ جی حضوری‘‘ کی پالیسی کی بجائے وفاق کے سامنے بلوچستان کے ہر اہم ایشو کو نہ صرف بھرپور انداز میں اٹھایا بلکہ انہوں نے کھلم کھلا وفاق کی زیادتیوں کو گنوایا۔
انہوں نے اپنے پیشرؤں کی طرح وفاق کی خوش آمد اور اس کو ہر صورت خوش رکھ کر اپنی وزارت بچانے کی بجائے ڈھنکے کی چوٹ پر اپنی بات کہہ ڈالی۔ انہوں نے نہ صرف بلوچستان بلکہ اسلام آباد میں بھی ہر فورم پر اس بات کا کھلم کھلا اظہار کیا کہ بلوچستان کے مسائل زیادہ ہیں ۔
وفاق اعلانات کے باوجود فنڈز نہیں دے رہا جس سے صوبے کے مسائل کے حل میں مشکلات درپیش ہیں ۔انہوں نے اس بات کا بھی بر ملا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت سی پیک منصوبے میں بلوچستان کو یکسر نظر انداز کررہی ہے پانچ سو ارب روپے سے ایک ارب روپے بھی سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے لئے خرچ نہیں کیے گئے۔
نواز شریف کے ’’ دائیں بائیں ‘‘ کھڑے ہونے والے بلوچستان کے سیاستدانوں نے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ خود تو جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں لیکن چار سال گزرگئے، سی پیک سے بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی نوید سناتے رہے اصل حقیقت بیان کی نہیں اور نہ ہی ۔
انہوں نے جرات کا مظاہرہ کیا کہ وفاقی حکومت کی مخالفت مول لیں ۔ عوام الناس کو بخوبی علم ہے کہ ان کی وزارت اعلیٰ ’’ رائے ونڈ پلان‘‘ کا حصہ تھا ۔ وفاق اور نواز شریف سے مخالفت مول لینے کامطلب وزارت اعلیٰ سے چھٹی تھی ۔
موجودہ وزیراعلیٰ کے بقول وہ خوش قسمت ہیں کہ لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کم تعداد میں ووٹ کاسٹ کرکے انہیں کامیابی دلوائی ۔ اچھی بات تو یہ تھی کہ جتنے ووٹ ملے ،اتنے ہی گنے گئے ۔ لوگوں نے خوف کی فضا میں ووٹ دئیے ۔ حلقہ کے آدھے لوگ خوف کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے ۔
خود میاں نواز شریف کی پارٹی کے امید وار کو صرف ایک ووٹ کاسٹ ہوا، ان کے بقول انہیں اپنے ووٹوں کو پچاس ہزار بنانے کا فارمولانہیں آتا۔ اگر نواز شریف سینٹ انتخاب جیت جاتے تو تب حاصل بزنجو کو شرم نہیں آنا تھا، جہاں تک محمود خان اچکزئی کی بات ہے وہ قابل احترام ہیں ۔
جمہوریت کا خود کو علمبردارکہتے ہیں سابقہ حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اگر صوبے میں کوئی ترقی ہوئی تو یہ صرف اور صرف قلعہ عبداللہ اور تربت تک محدود رہی ۔ جہاں تک سی پیک جیسے اہم منصوبے کی بات ہے اس بارے میں جے یو آئی نظریاتی کے رہنما کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ بلوچستان میں سی پیک کا بہت بڑا چرچہ کیا جارہا ہے ۔
حکمران اس منصوبے کو بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمہ سے تشبیہہ دے رہے ہیں لیکن بلوچستان میں سی پیک کے ثمرات نظر نہیں آتے۔ گوادر کو سی پیک کا مرکز قرار دیا گیا ہے لیکن وہاں کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔
سی پیک اور موٹر وے کو سوراب تک محدود کردیا گیا ہے سی پیک کے فنڈز سے پنجاب کو ہزاروں ملازمتیں دے کر صنعتیں قائم کی گئیں ان کے بقول گوادر اور بلوچستان کی صورت حال کی ذمہ دار وہ قیادت ہے جنہوں نے سابق وزیراعظم کے ساتھ مل کر ان کے ہاں میں ہاں ملائی ۔
یہاں کی بلوچ قوم پرست اور مذہبی قیادت نے چند مراعات کے لئے اپنا سودا کیا جس کے مرتکب ہونے والوں میں فضل الرحمنٰ‘ محمود خان اچکزئی ‘ حاصل بزنجو ‘ ڈاکٹر مالک بلوچ اور مولانا غفور حیدری شامل ہیں ۔
جہاں تک بلوچستان کے دیگر مسائل کا تعلق ہے صرف دارالحکومت کوئٹہ کی صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو تمام حقائق ہمارے سامنے آجائیں گے۔ کوئٹہ کا دیگر صوبائی دارالحکومتوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیاجائے تو یہ بات ہرگز غلط نہ ہوگی کہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے ۔
سابق حکومتوں نے کوئٹہ کے مسائل کے حل کیلئے صرف اور صرف بلندو بانگ دعوؤں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کوئٹہ آج دارالحکومت نہیں بلکہ کسی اجڑے کا منظر پیش کررہا ہے اہم سڑکوں کی حالت ابتر ہوچکی ہے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے ،پارکنگ پورے شہر میں نہیں اور نہ ہی ان سابقہ حکومتوں نے اس پر توجہ دی ۔
صرف پلازے بنائے جارہے ہیں وہ بھی نجی طورپر ‘ اور اپنے کاروبار کی وسعت (نیکی کی خاطر) کی خاطر۔ حکومتی سطح پر شہر کی حالت پر توجہ تک نہ دی گئی جناح روڈ کو کھود کر مہینوں تک چھوڑ دیا گیا ۔
اخبارات میں خبریں لگیں اس کے باوجود سڑک پختہ نہیں کی گئی اللہ بھلا کرے کہ موجودہ وزیراعلیٰ کا جنہوں نے دورے کے بعد اس کی فوری تعمیر کا حکم دیا اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ یہ سڑک فوری طورپر تعمیر ہو گئی۔ صوبائی دارالحکومت کی یہ حالت ہے دیگر ڈویژنل ہیڈکوارٹروں کی کیا حالت ہوگی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
سرکاری محکموں میں بد ترین اقربا پروری کی گئی، غریبوں کو ملازمتوں سے دور رکھا گیا ، سرکاری اور قیمتی پلاٹوں کو ’’لیز‘‘ کے نام پر اہم شخصیات نے قبضہ کرکے راتوں رات تعمیرات کردیں ۔
تعلیمی ادارے تباہ حال ہوچکے ہیں۔ بجلی کے نام پر بد ترین لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، ۔ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے سامنے مسائل کا انبار ہے لیکن وہ ان مسائل سے گھبرا کر آنکھیں بند نہیں کررہے بلکہ دستیاب وسائل سے ان کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں اور عوام کو ان کی خلوص پر کوئی شک نہیں۔