|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2018

تربت : بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹرعبدالحئی کا نیشنل پارٹی کے رہنما میئر میونسپل کارپوریشن تربت قاضی غلام رسول سے ملاقات، سیاسی صورتحال پر دونوں رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیال۔ 

بی این ایم کے قائد بزرگ سیاسی رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے جمعرات کے روز میئر میونسپل کارپوریشن تربت قاضی غلام رسول سے ان کے دفتر میں ملاقات کی ، دونوں رہنماؤں نے موجودہ سیاسی صورتحال، سیاسی میں تضادات اور سیاسی پارٹیوں کے کردار سمیت بلوچ قومی بقاء اوردیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔ 

ڈاکٹر عبدالحئی نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی تضاد کسی کے حق میں نہیں ہے سیاسی جماعتیں عدم برداشت کی پالیسی ترک کر کے ایک دوسرے کے ساتھ قومی معاملات پر اتفاق پیدا کریں تاکہ جو غیر سیاسی عناصر یا غیر جمہوری قوتیں ہیں ان کا راستہ سیاسی طاقت کے بل پر روکا جائے۔ 

انہوں نے کہاکہ سیاست ایک دائمی عمل ہے اس میں رکاؤ اور تکھاوٹ پیدا نہیں ہونی چاہیے اس وقت بلوچ تاریخ کے کمزور تریں دور سے گزر رہے ہیں ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھ کر میدان سنبھالنا چاہیے۔ 

انہوں نے اس خواہش کاا ظہار کیا کہ اگلے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں بی این اے طرز کی اتحاد قائم کریں تاکہ ان کی طاقت تقسیم نا ہواپنی سیاسی زندگی میں ان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی معاملات پر اتفاق کریں سندھی بلوچ پشتوں فرنٹ کے بعد بلوچستان میں بی این اے ایک واحد اتحاد تھا جس میں سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ زیادہ دیرپا نا رہا۔

انہوں نے کہاکہ میر غوث بخش بزنجو کی 1988کے انتخابات میں شکست پر بے بنیاد الزام تراشی کی جاتی رہی ہے ہم نے بی این اے کے اتحاد میں اسے شامل ہونے کی استدعا کی تھی یہ تاریخی غلطی خود اس نے کی تھی کہ بی این اے میں شامل نا ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ قومی جہد کو کسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش گھاٹے کا سودا ہے اپنے سیاسی فکر و نظر پر کار بند رہ کر 1960سے ایک واضح سیاسی لائن کے تحت جدوجہد کی ہے کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ قومی جہد کو نقصان دے نیشنل پارٹی سے نکلنا ایک اصولی فیصلہ تھا اس میں صدارت کی لالچ یا کوئی اور زاتی غرض شامل نہیں تھا ۔

اس موقع پر نیشنل پارٹی کے رہنما قاضی غلا م رسول نے کہاکہ بلوچستان کی سیاسی جدوجہد میں ڈاکٹر حئی کا مقام بہت اہم ہے ، ہماری سیاست ہمیشہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی ہے سیاسی اختلافات سیاسی پلیٹ فارم کے اندر رہ کر حل کیئے جاتے تو ہمارے ارد گرد غیر منظم پارٹیوں کا جم گھٹا نہ ہوتا ۔

بلوچوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ طاقت ور ہونے کے بجائے روز بروز کمزورتر ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی شکست اور ہماری کمزوری کا سب سے بڑا زمہ داری لیڈر شپ ہے جنہوں نے قوم کو متحد کرنے کے بجائے پارٹیوں میں تقسیم کیا۔

لیڈر شپ میں عدم برداشت کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کمزور ہورہی ہے غیر سنجیدہ سیاسی رویوں کی وجہ سے ہم نے کافی نقصان اٹھایا ہے ہمارے لیڈران کو چاہیے کہ وہ ڑیڑھ اینٹ کی مساجد سجانے کے بجائے قومی مفادات کی خاطر اتحاد کی جانب جائیں۔

انہوں نے کہاکہ نیشنل ازم کو پروان چڑھانے کے لیئے گفتار کے بجائے عملی طور پر بلوچ کو ایک منظم سیاسی قوت کی ضرورت ہے وسیع سیاسی سوچ کے تحت سیاسی قیادت کواتحاد کی جانب جانا چاہیے تاکہ ہم قومی بقاء اور شناخت کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور غیر سیاسی قوتوں کا مقابلہ کرسکیں۔