وزیراعظم نواز شریف نے چند روز قبل ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور حکومت کے پاس وسائل نہیں کہ ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نئے بجلی گھر تعمیر کیے جائیں۔ مالی اور معاشی مشکلات کئی سالوں سے جاری ہیں ان میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس وجہ سے بار بار حکومت آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرتی ہے۔ امداد حاصل کرتی ہے اور آئی ایم ایف کے احکامات بجالاتی ہے اور آئے دن بجلی، گیس ،تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے تاکہ عوام پر زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاسکے۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ حکومت کو لوگوں کے مشکلات کی پرواہ نہیں۔ وہ صرف تاجروں، صنعت کاروں، نودولتیوں کے مفادات کی نگہداشت کررہی ہے۔ ان صنعت کاروں کا مطالبہ تھا کہ ان کو گیس کی سپلائی بحال کی جائے تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو۔ حکومت نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کیا اور صنعت کاروں اور ان کے کارخانوں کو قدرتی گیس بحال کردی گئی اور گھریلو صارفین کی گیس کاٹ دی گئی یا اتنی کم کردی گئی کہ لوگ گھروں میں کھانا نہ پکاسکیں اور سرد علاقوں میں لوگ سخت سردی سے بچنے کے لیے کمرے گرم نہ کرسکیں۔ اب تو وزیراعظم پاکستان نے اپنے زبان سے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ملک میں وسائل نہیں ہیں ،دوسرے الفاظ میں ترقی کا عمل روک دیا گیا ہے اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ موجودہ حکومت نے معیشت کی بحالی کو اولیت دی، امن عامہ کی بحالی کو نہیں۔ اگر گزشتہ 6ماہ میں امن و امان کو ٹھیک کردیا گیا ہوتا تو اس وقت معیشت کی بحالی کا عمل کافی حد تک تکمیل کی جانب رواں ہوگیا ہوتا۔ مگر حکومت اوراس مستقبل کے لیے چند دہشت گرد پاکستان اور اس کے عوام سے زیادہ اہم ہیں۔ لہٰذا مستقبل کے لیے ان دہشت گردوں کو پالنا ضروری ہے۔ چاہے ملک میں کتنی ہی بڑی تباہی کیوں نہ آئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت آج بھی امن و امان کی بحالی کو اولیت دے۔ تمام جرائم پیشہ لوگوں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ ان کے کمانڈ اور کنٹرول کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ کرے تاکہ آئندہ کوئی شخص یا گروہ امن و امان اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرے۔