اگر قومی اسمبلی نے فنانس بل کو منظور بھی کرلیا تو بجٹ2018-19 کے دو اہم پہلو متنازع رہیں گے۔ ان دو پہلوؤں کی تفصیل اس طرح ہے: پاکستانیوں کے غیر ملکی زر مبادلہ کے کھاتوں کو ،خواہ وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد سفید کرنے کی اسکیم؛ اور متوسط طبقے کو بڑے پیمانے پر دی جانے والی رعایت ، جس کے ذریعے سالانہ آمدنی پر استثنا کی سطح 400,000 روپے سے بڑھا کر 1.2 ملین روپے کر دی گئی ہے۔
ایف بی آر نے از سر نو غورکے بعد400,000روپے سے زیادہ آمدنی پر کم سے کم فلیٹ ٹیکس عائد کیا۔ یہ فیصلہ اُن ٹیکس دہندگان کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی فہرست میں رکھنے کے لیے کیا گیا جو 400,000 روپے سے زیادہ آمدنی کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔
ماضی میں ٹیکس دہندگان کو اپنا دھن سفید کرنے کی ترغیب دینے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں۔سب سے بڑی کوشش ڈاکٹر محبوب الحق کی طرف سے ” وائٹنر بونڈ” متعارف کراتے ہوئے کی گئی تھی ،جو بہت کم کامیاب ہو پائی۔مجھے اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں کراچی کے کاروباری حضرات کے ساتھ ڈاکٹر حق کی ایک ملاقات یاد آ رہی ہے جو انھیں یہ بتانے کے لیے ہوئی تھی کہ اپنا سارا کالا دھن سامنے لانے کے لیے یہ آخری موقع ہے۔
ایک بے باک اور کھری بات کرنے والے بزنس مین نے انھیں صاف صاف بتایا کہ صنعت کاروں سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ ان کی اسکیم کے جواب میں اپنا تمام کالا دھن ظاہر کر دیں گے۔اس کاروباری شخصیت نے وضاحت کی کہ جب سرکاری حکام سے ان کا واسطہ پڑتا ہے تو انھیں ٹیکس کے محکمہ سے لے کر سول ڈیفنس انسپکٹر تک، ہر کسی کورشوت اور فائل آگے بڑھانے کے لیے رقم دینی پڑتی ہے،جو کھاتوں میں ظاہر نہیں کی جا سکتی۔
متوسط طبقات کو دی جانے والی ٹیکس کی رعایت ایک اچھا اقدام ہے حالانکہ اس سے قومی خزانے پر 90 سے 100 بلین روپے کا بوجھ پڑے گا۔یہاں مجھے90 کی دہائی کا ایک اور واقعہ یاد آ گیا،جب وی اے جعفری پی پی پی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ تھے۔انھوں نے معیشت پر لکھنے والے چنیدہ لوگوں کو بجٹ سے قبل بریفنگ دی اور ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بجٹ میں جو ٹیکس تجویز کرنا چاہتے ہیں انھیں قبول کیا جائے۔
انھوں نے کینیڈا اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کی مثال دی جہاں ٹیکس کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔اس پر میں نے کہا کہ آپ پاکستان کے لوگوں سے یہ قبول کرنے کی امید نہیں کر سکتے،کیونکہ پاکستان میں روزانہ وہ لوگ ،جن کے وسائل ہیں اپنے بچوں کی تعلیم، اپنی ریٹائرمنٹ، صحت کے اخراجات اور بیروزگاری کی مدت کی انشورنس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔جعفری صاحب نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ” پاکستان میں انشورنس کرانے والوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے” ۔
میں نے وضاحت کی کہ میں اصل انشورنس پالیسیوں کی بات نہیں کررہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر لوگوں کے پاس وسائل ہیں تو وہ مذکورہ بالا اخراجات کے لیے پیسہ بچاتے ہیں کیونکہ سرکاری اسکول بہتر تعلیم فراہم نہیں کرتے اور سرکاری ہسپتالوں میں اچھا علاج نہیں ہوتا۔کسی بھی معاملہ میں سرکاری سہولتیں تمام شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔بڑھاپے میں حکومت کوئی پنشن اور کسی قسم کا بیروزگاری الاؤنس نہیں دیتی۔
اگر لوگ دیانت داری سے ٹیکس دیتے ہیں تو حکومت کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیئے کہ اسے ٹیکس سے جو پیسہ ملتا ہے وہ احتیاط اور سمجھ داری کے ساتھ لوگوں کی سماجی بھلائی پر خرچ کرے۔سوشل ڈیموکریسی میں رہنے والوں کو زیادہ ٹیکس برے نہیں لگتے کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کی مذکورہ بالا ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور یوٹیلٹی بلز بھی کم رکھے جاتے ہیں۔اگر ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہوتا تو انھیں کونسل ہاؤسز فراہم کیے جاتے ہیں۔.
دوسری طرف پاکستان میں، غریبوں کی بستیاں ہوں یا امیر لوگوں کے علاقے، لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی خریدنا پڑتی ہے۔بجلی کی سپلائی میں تواتر کے ساتھ تعطل پیدا ہوتا ہے ، اس لیے متبادل ذرائع کا انتظام کرنا ہو گا۔امن و امان کی حالت خراب ہے ، لہٰذا نجی محافظ رکھنا پڑتے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے البتہ اس ضمن میں پنجاب میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
دوسری طرف ٹیکس دہندگان ،سرکاری افسروں اور نام نہاد وی آئی پیز کو دی جانے والی مہنگی گاڑیاں دیکھتے ہیں۔مثال کے طور پر ایوانِ وزیر اعظم اور ایوانِ صدرکے شاہانہ اخراجات کو نصف سے بھی کم کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کو بتایا جا سکے کہ خود حکومت بھی اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہے۔مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے بعض اقدامات کیے تھے۔
انھوں نے کہا تھا کہ فوجی جرنیلوں سمیت سرکاری افسروں کو مہنگی گاڑیوں کی بجائے صرف سوزوکی800 استعمال کرنی چاہیئے۔سول اور ملٹری بیوروکریسی اور وزیروں نے اس کوشش کا برا منایا تھا۔کراچی میں جب دہشت گردوں کی طرف سے مہران ائر بیس پر حملہ کیا گیا ،تو اس کے بعد لوگوں نے بحریہ کے سربراہ کو چمچماتی ہوئی سیون سیریزBMW میں وہاں آتے ہوئے دیکھا ۔دوسری طرف میں نے بھارت کی بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کی سرکاری کاروں کو بھی دیکھا ہے جو سوزوکی لیانا کے برابر ہیں۔
سینئر پولیس افسر لینڈ کروزرز جیسی مہنگی SUV’s میں اپنے دفتر جاتے ہیں۔عدلیہ کو حکومت کی شاہ خرچیوں کا آڈٹ کرتے ہوئے ، اسے پہلے اپنے اخراجات اور مراعات کو کم کرنا چاہیئے۔غلط طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں صرف1.2 ملین لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔در اصل یہ ان لوگوں کی تعداد ہے جو براہ راست انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اس ٹیکس میں سے بھی 68 فیصد پیشگی انکم ٹیکس نظام کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔
اس کیٹگری میں آنے والے ٹیکس دہندگان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین یا وینڈرز سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں۔اس سے ایسے بزنسز کی کاروباری لاگت بڑھتی ہے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں کیوں کہ انھیں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کی مہم کا ساتھ دینے کے لیے ،اپنی کاروباری وسعت کے لحاظ سے الگ عملہ ملازم رکھنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ تقریباً ہر شخص اپنے استعمال کی اشیا اور خدمات پر جنرل سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے،جو قومی خزانے کے لیے محاصل کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔بنیادی طور پر یہ user tax ہے،جسے وہ لوگ بھی ادا کرتے ہیں جن کی آمدنی انتہائی کم ہے۔موبائل سروسز کی مثال لیجئے جسے اب کم آمدنی والے گروپ بھی استعمال کرتے ہیں۔اگر وہ ماہانہ 500 روپے کا کریڈٹ ڈالتے ہیں تو انھیں اس رقم میں سے 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو سالانہ1500 روپے بنتا ہے۔یہ کم سے کم ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس35-37 فیصد ہے۔یہ بھی user tax ہے جو ہر کوئی اپنی کھپت کے مطابق ادا کرتا ہے۔غریب آدمی اسے پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ کرایوں کی شکل میں اور امیر آدمی اپنی مہنگیSUVs کے لیے ایندھن خریدتے وقت ادا کرتا ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ ٹیکس کی مجموعی وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب ،ایف بی آر کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکس ریونیو کا لگ بھگ55 فیصد ہے۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟یہ کہ اگر ٹیکس بالواسطہ اور قطعی ہوں تو لوگ انھیں بخوشی ادا کرتے ہیں ، اس طرح وہ ایف بی آر کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں آتے کیوں کہ انھیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔