|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2018

جس شخصیت کے متعلق آج کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں اس شخصیت کے بار ے میں لکھنے کیلئے میں نہ تولفظ منتخب کر پاتا ہوں نہ لکھنے کی ہمت کرپاتا ہوں جی ہاں بہت مشکل ہوتی ہے کسی ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا جو والد کی طرح محترم اور استاد کی طرح شفیق انسان ہو صحافت میں قدم رکھنے کا موقع گو کہ مجھے روزنامہ انتخاب حب میں میڈم نرگس بلوچ اور انور ساجدی صاحب نے دیا لیکن اس شعبے میں انگلی پکڑ کر مجھے ماما صدیق بلوچ نے چلنا سکھا یا۔ 

صحافت کے آغاز کے بعد میں پہلی مرتبہ کراچی پریس کلب کی عمارت کے باہر پہنچا اور دروازے پر کھڑے ہوکر اس عمارت کو دیکھ رہا تھا لیکن اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ اچانک اپنے والد کے پرانے دوست عزیز سنگھور پر نظر پڑی اور ہمت کرکے انہیں آواز دی عزیز سنگور جنہیں میں ناکو عزیز کہتا ہوں انہیں بچپن سے جانتا تھا سلام دعا کہ بعد ناکو عزیز نے پوچھا یہاں کہا کررہے ہومیں نے کہا انتخاب اخبار میں کام شروع کیا ہے ۔

پریس کلب آنے سے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی اندر جانے سے روک نہ دے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا جب تک ہم زندہ ہیں کوئی تمہیں روک کرتو دکھائے آؤ میرے ساتھ اور ہاتھ پکڑ کر پریس کلب کے اندر لے گئے اور پھر اندر موجود عارف بلوچ اور سعید سربازی سے ملوایا اور میرا تعارف کرواکے میرے کراچی پریس کلب آنے کا مقصد بتادیا ان دونوں شخصیات سے میری پہلی ملاقات تھی یہ دونوں بھی مجھے ویسے ہی گرم جوشی سے ملے جیسے سالہاسال سے ان سے کوئی شناسائی ہو اور پھر ان تینوں نے بتایا وہ روز دوپہر میں یہاں ہوتے ہیں اور اپنے نمبر دیتے ہوئے کہا کبھی ہم یہاں موجود نہ ہوں او رکوئی ضرورت محسوس ہو تو فون کرکے بتاؤ۔ 

اسے میری خوش قسمتی کہیں اس ملاقات کے چند روز بعد ایک دن میں پریس کلب کی کینٹین پہنچا تو ان تمام افراد کے بیچ موجود ایک بزرگ کو سیاسی صورتحال پربات کرتے ہوئے دیکھا کراچی پریس کلب کے بڑے سینئر ممبران خاموشی سے انہیں سن رہے تھے ایسے لگ رہا تھا کوئی لیکچر یا اسٹڈی سرکل چل رہا ہو غوثی صاحب ،حبیب خان غوری، طاہر حسن خان، علاؤالدین خانزادہ، اشرف خان، حسن منصور ،نجیب احمد، قیصر بھائی اور بہت سے سینئر ز انہیں خاموشی سے سن رہے تھے۔ 

ادریس بختیار صاحب اور قیصر بھائی کہیں کسی معاملے پر اختلاف کرتے تو انہیں ماما کہہ کر یا پھر لالا کہہ کر مخاطب کرتے اورماما انکے اختلاف پر بھی دلائل کیساتھ بات کرتے۔ میں اس وقت تک خاموشی سے اس محفل سے محظوظ ہوتا رہا کچھ رش کم ہوا تو عارف بھائی نے ماما کو مخاطب کرکے میرا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں انتخاب حب کیلئے کام کررہا ہوں۔ 

ایک مسکراہٹ کیساتھ انہوں نے مجھے اپنے قریب نشست پر بلایا اور فیملی کے متعلق پوچھا اس گفتگو میں جب ذکر چچا رجب علی رند کا آیا تو انکا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور بڑے محبت سے پوچھا میرا دوست حاجی وزیر خان کیسا ہے میں نے انہیں انکی خیریت بتائی اور پھر ماما نے بہت ہی پیار سے کہا کہ دیکھو اس شعبے میں پیسا کمانا چاہتے ہو تو پھر پیسا بے حساب آئیگا لیکن عزت نہیں ملے گی لیکن اگر ایک بار عزت کما لی تو پیسہ خود بخود چل کرتمہارے پاس آئیگا۔ 

یہ بات اپنے گرہ سے باندھ لو اور ہاں یاد رکھنا تم بلوچ ہو بلوچستان کے اخبار کیلئے کام کررہے ہو۔ آجکل بلوچستان میں جو حالات ہیں اس میں بہت محتاط رہ کر کام کرنا کبھی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو بلا جھجک ان تمام دوستوں سے بات کرو یا اگر میری ضرورت پڑے تو مجھے بتاؤ۔ 

مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ایک والد اپنی اولاد کو سمجھا رہا ہو اس ملاقات کے بعد کراچی میں موجود عزیز سنگور ،عارف بھائی اور سعید بھائی چھوٹے بھائی کی طرح میرا خیال رکھتے تھے۔ انتخاب سے نکالے جانے کے بعد آئی آئی چند ریگر روڈ پر بہت پریشانی کے عالم میں پہلا نمبر ملایا وہ تھا عارف بلوچ کا جیسے ہی عارف بلوچ نے فون اٹھایا ابھی میں کچھ نہیں بولا تھا عارف بھائی نے کہا پریس کلب آجاؤ وہاں پہنچا تو حیران تھا انہیں سب کچھ پہلے سے پتا تھا اور پھر سعید سربازی اور ماما سے بات کرنے کے بعد عارف بھائی نے مجھے کہا تم ابھی کائنات اخبار کے دفتر جاؤ اور فدا عباسی سے ملو۔ 

ابھی کائنات میں کام شروع ہی کیا تھا مشکل سے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا، ماما سے پھر کراچی پریس کلب میں ملاقات ہوئی ۔سیڑھیوں پر ایک شخص جھک کر ماما سے ملااور ماما نے اسے صرف اتنا کہا کہ اس لڑکے کو دیکھ لو میرا بھانجاہے باصلاحیت ہے میں اس شخصیت کو جانتا بھی نہیں تھا اورتھوڑی دیر بعد وہیں پریس کلب میں عارف بھائی نے کہا یہ نمبر نوٹ کرو اور کل جاکر اے آر وائی کے ڈائیریکٹر نیوز اویس توحید سے مل لو۔ 

اگلے روز جب فون کرکے اے آر وائی کے دفتر پہنچا تو دیکھا اویس توحید وہی شخصیت تھی جس سے ماما نے تعارف کروایا تھا اور تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہا کہ آپ کو صدیق صاحب نے بھیجا ہے میں نے کہا جی اور اس ہی اثناء میں ایچ آر کی خاتون کو انہوں نے ہدایات دیں کہ انکا اپائنٹمنٹ لیٹر لے آئیں اور مجھے اے آروائی میں ٹرینی رپورٹر ملازمت مل گئی ۔

ابھی میں نے اویس صاحب کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ انہوں نے مجھے کہا چلیں کام شروع کریں اور ڈیسک پر لیجاکر وسیم احمد سے تعارف کرواکے وہاں بیٹھنے کو کہا اور وسیم بھائی نے کام کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ عارف بھائی کا فون آیا اور بھرپور انداز میں انہوں نے مجھے مبارک باد دی۔ 

اے آر وائی میں ایک سال بعد جب اویس صاحب چلے گئے تو مجھے شاہین صہبائی صاحب نے کہا تم بلوچ ہو، بلوچستان میں کام کروگے میں نے حامی بھرلی اور کوئٹہ آگیا لیکن کوئٹہ میں اس وقت کے اے آر وائی کے بیوروچیف سے نہ نبھ سکی اور میں نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ ابھی چند روز ہی گھر پر گزارے تھے کہ عارف بھائی نے کراچی پریس کلب بلوایا اور جب وہاں پہنچا تو طارق نے بتایا ماما نے تمہیں کوئٹہ بلایا ہے چلوگے ۔ماما پر میں تو کیا میرے اہلخانہ کا بھی اعتبار ایسا بن گیا کہ جب میں نے گھر پر مشاورت کی توسب نے کہا جاؤ میں کوئٹہ پہنچا شام سات بجے ماما سے ملاقات ہوئی۔ 

ماما نے کہا وہ بیٹھا ہے تمہارا ایڈیٹر جاؤ اس سے مل لو، میں آصف بھائی کے پاس بیٹھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ آصف بھائی نے کہا تم یہاں ایک ہفتہ یا پندرہ دن ہی کام کروگے مجھے محسوس ہواکہ میرے اے آر وائی چھوڑنے پر آصف بھائی ناراض ہیں لیکن اس دن حیران ہوا جب ایسی ہی ایک شام سات بجے ماما دفترآئے اور مجھے بلاکر کہا اوپر جاؤ، تیار ہوکر آؤ۔ 

میں سمجھا ماما اپنے ساتھ کہیں لے جائینگے جب تیار ہوکر آیا تو کہا سنی کو ساتھ لیکر جاؤ، سرینا ہوٹل میں طاہر نجمی سے مل لو واپس آیا تو آصف بھائی نے مسکرا کر کہا بچہ کیا کہا تھا تم ہفتہ یا دس دن سے زیادہ یہاں کام نہیں کروگے اور میرے پاس کوئی لفظ نہیں تھے کہ میں ماما یا آصف بھائی کا کوئی شکریہ بھی ادا کرسکتا کیونکہ یہ لفظ بہت چھوٹے تھے اور پھر اس سفر میں ایکسپریس سے سماء اور پھر اے آر وائی نیو زاور پھر ہم نیوزسے اب’’ آپ‘‘ تک کہ اس سفر میں ماما اور آصف بھائی کی رہنمائی ہمیشہ شامل رہی ہے۔ 

اب ماما کہ بعد کسی معاملے پر فیصلہ کرنا ہوتو آصف بھائی سے مشاورت کرلیتا ہوں اور لگتا ہے جب تک کسی فیصلے میں انکی مشاورت اور رہنمائی نہ لوں فیصلہ نہیں کرپاتا ۔اس تحریر کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ماما سے میرا تعلق خون کا نہیں تھا لیکن انہوں نے میرے خونی رشتوں سے زیادہ میری زندگی کو اس مقام تک پہنچانے میں میری مدد کی۔

صرف میں ہی نہیں ظہور بلوچ ‘ملک سراج اکبر‘امین اللہ فطرت سمیت کئی ایسے نوجوان ہیں جو آج اپنی کامیاب زندگیوں میں مگن ہیں ان سب کی کامیابیوں کے پیچھے ماما کی والد جیسی محبت‘ استاد جیسی شفقت اور انکی رہنمائی شامل ہے اپنی تحریر کے اختتام پر صرف اتناکہنا چاہونگا میں جس چیز کو ہمیشہ مس کرونگا وہ ماما کی پیار بھری ڈانٹ ہے جب کبھی کوئی غلطی کرتا یا کسی موقع پر بے تکی ہانکنے لگتا تو صرف اتنا کہتے ’’اڑے تؤ گنوک بیتگے‘‘۔۔۔۔۔۔،(تم پاگل ہوگئے ہو)اس کا مطلب ہوتا تھا اب اس کے بعد کچھ نہیں بولنااور وارننگ نما ڈانٹ مجھے بہت سے مشکلوں سے بچالیتی تھی ۔

ماما ملک کی صحافت کا ایک بہت بڑا نا م تھے لیکن بلوچستان کی صحافت میں وہ اپنی ذات میں ایک انسٹی ٹیوشن تھے۔ ماما کی وفات سے ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا جسے پر کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے بقول علاؤالدین خانزادہ کے میرے عہد کے لوگو!آج ایک عہد تمام ہوا ۔۔۔۔۔۔۔

One Response to “ماما صدیق بلوچ، ایک استاد ، ایک شفیق انسان”

  1. Amin Khaskheli

    بہت اعلٰی۔۔۔ کچھ رشتے خونی رشتوں سے بہت بہت بڑھ کر ہوتے ہیں۔۔۔ خوش رہیں شاہد رند

Comments are closed.