|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2018

بلوچستان میں ان دنوں ایک نئی جماعت کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے جی ہاں یہ نام ہے نومولود جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کاجسے عرف عام میں بلوچستان میں باپ کے نام سے پکارا جارہا ہے گو کہ اس جماعت کے پہلے بلامقابلہ صدر مرحوم جام یوسف کے صاحبزادے جام کمال ہیں لیکن سابق سینیٹر سعید ہاشمی کو اسکا بانی کہاجاتا ہے لیکن اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔

دو سے تین سال قبل سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی نے صحافیوں کے اعزاز میں اپنی رہائشگاہ پر ایک ظہرانہ دیا تھا جس میں غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے پہلی مرتبہ ایک آئیڈیا پیش کیا کہ بلوچستان میں جتنے بھی مسلم لیگی سیاستدان ہیں ۔

انہیں ایک لوکل مسلم لیگ یعنی بلوچستان کی سطح کی علیحدہ مسلم لیگ بنانے کی ضرورت ہے اور وہ کوشش کرینگے کہ وہ اپنے ہم خیال دوستوں کو اس بات پر قائل کرلیں اور جب جان محمد جمالی صاحب کے تعلقات اس وقت اپنی جماعت ن لیگ سے ایک سینٹ ٹکٹ کے معاملے پر تلخ ہوئے تو انہوں نے بڑی شدومد سے نئی جماعت بنانے کے معاملے پر بات کرنی شروع کی اور بالآخر جب بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت ہچکولے کھانے لگی اور نواب ثناء اللہ زہری مستعفٰی ہوکر اقتدار سے علیحدگی اختیار کی ۔

تو نواب زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین نے مشاورت کا آغازکیا اور فوری طور پر ایک نئی جماعت کی تشکیل کا اعلان کردیا لیکن حیران کن طور پر جن افراد نے ابتداء میں نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا تھا وہ اس جماعت کا مرکزی خیال لانے والے جان محمد جمالی کی طرح اس جماعت کا حصہ تو ہیں لیکن وہ کہیں پس منظر میں رہ رہے ہیں ۔

اسکی وجوہات پر پھر کبھی بات کی جاسکتی ہے لیکن نئی جماعت کی تشکیل کے اعلان کیساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ جام کمال کو نہ صرف اسکا سربراہ بنایا جائیگا بلکہ وہ آئندہ عام انتخابات میں وزارت اعلٰی کے امیدوار بھی ہونگے ۔

لیکن حیران کن طور پر اس جماعت کا خیال پیش کرنے والے جان محمد جمالی اسٹرائیکر کی حیثیت سے میدان میں نظر نہیں آئے یہاں تک کہ اس ٹیم کی کوچنگ کی ذمے داری بھی سابق سینیٹر سعید ہاشمی نے سنبھالی اور ابتدائی مشاورت کے بعد مسلم لیگ بلوچستان کے بجائے بلوچستان عوامی پارٹی معرض وجود میں آئی اور بلوچستان کی سیاست کے مروجہ روایات کے مطابق جام کمال جو کہ بلوچ ہیں انہیں صدر بنایا گیا اور ہمارے پشتون دوست منظور کاکڑ جوکہ پشتون ہیں انہیں جنرل سیکریٹری لایا گیا۔ 

موجودہ صورتحال میں بلوچستان کے کونے کونے سے حتٰی کہ خاران ہو یا مکران نصیر آباد ہویا چمن سنجاوی ہو یا چاغی ہر الیکشن لڑنے والے سیاستدان جوق در جوق اس جماعت میں شمولیت کرتے نظر آرہے ہیں۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی کے اکابرین کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچستان اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کرینگے اگر اس میں کامیاب نہ ہوئے تب بھی انہیں بیس سے پچیس نشستیں باآسانی مل سکتی ہیں میری ناقص رائے میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔

کیونکہ اب تک بلوچستان کی اسمبلی میں بیس کے قریب ایسے افراد یا انکی قریبی رشتے دار اسمبلی کا حصہ ضرور بنتے ہیں چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہوں لیکن انکا زیادہ تر جھکاؤ مرکز میں حکومت بنانے والی جماعتوں کی طرف رہتا تھا ایسے ہی تمام افراد فی الحال اس جماعت کی چھتری تلے اکھٹے ہوئے ہیں ۔

ایسے میں مکران سے ظہور بلیدی ،رؤف رند اورجھالاوان اور سراوان سے آغا شکیل درانی اور نواب زادہ سراج رئیسانی ایک نیا اضافہ ہیں۔ ناقدین حیران ہیں کہ نواب اسلم رئیسانی کے بھائی اور نواب ثناء اللہ زہری کے برادر نسبتی کیسے اس طرف راغب ہوئے۔ 

اس جماعت نے صرف بلوچ علاقوں میں نہیں پشتون علاقوں کے سیاستدانوں کو بھی اپنی جانب راغب کرلیا ہے جیسا کہ سردار در محمد ناصر جو کہ مسلم لیگ ن کے سینیئر رکن سردار یعقوب ناصر کہ قریبی عزیز ہیں ان کیساتھ سنجاوی زیارت سے نور محمد دمڑ اور چمن سے عبدالخالق اچکزئی بھی اس جماعت کا حصہ ہیں ۔

اس جماعت کے قیام میں ایسے تمام افراد کا بڑا حصہ ہے جو کہ یا تو خود یا انکے اکابرین وفاقی جماعتوں کے بلوچستان میں نام لیوا رہے ہیں لیکن اب یہ تمام افراد ایک نئے بیانیے کہ ساتھ میدان میں آئے ہیں اور یہ نیا بیانیہ کیا ہے جی ہاں بیانیہ نیا نہیں ہے لیکن ہے کیا ؟

ان افراد کا مؤقف ہے کہ وفاقی جماعتیں بلوچستان کی لیڈر شپ کو نظر انداز کرتی ہیں اسلئے انہیں یہ محسوس ہوا کہ انہیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جسکے لئے وہ کسی وفاقی جماعت یا مرکزی لیڈر کے فیصلے کے محتاج نہ ہوں۔ 

میری ناقص رائے میں کچھ یہی مؤقف تو بلوچستان کی قوم پرست لیڈر شپ کا قیام پاکستان کے بعد سے لیکر ستر میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے لیکر آج تک ہے کہ وفاقی جماعتیں بلوچستان کونظر انداز کرتی آرہی ہیں تو پھر اس سیاسی جماعت کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے ماضی کے وفاق پرست سیاست کے اکابرین یہ اعتراف کرینگے کہ تب سے اب تک انکی جو سیاست تھی وہ غلط تھی اور جب لگ بھگ چار دہائیوں سے اقتدار پر براجمان وفاقی جماعتوں میں رہتے ہوئے اپنی جگہ نہیں بناسکے تو قومی اسمبلی کی چودہ میں سے جو نشستیں جماعت کو ملینگی ۔

انکی مدد سے وزیر اعظم کے انتخاب سے لیکر بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کیلئے کسی بھی قانون کی منظوری کیلئے کیسے مؤثر اندازمیں آواز اٹھا سکتے ہیں ۔یہ سوال تاحال حل طلب ہے فی الحال یہ جماعت بڑی تیزی سے کامیابیاں سمیٹ رہی ہے ۔

اسلئے بلوچستان کی سیاست میں وفاق پرست جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو جن نشستوں پر کامیاب امیدوار ملنے کی امید تھی ،اب وہ دم توڑ رہی ہے، نہ صرف وفاق پرست بلکہ اب تو قوم پرست جماعتوں کو ملنے والی کچھ سیٹیں بھی خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہیں ۔

فی الحال یہ جماعت اگر کسی قوت کو نقصان نہیں پہنچا سکی وہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی ف ہے لیکن آنے والے دنوں میں بھی صورتحال یہی رہتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ بحر حال بلوچستان کے سیاسی اکھاڑے میں مقابلہ اب بھی تین ہی قوتوں کے درمیان ہوگا جن میں جمعیت ،بلوچ اور پشتون قوم پرست شامل ہیں۔ 

اگر نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئی تو صوبے کی تاریخ کی پہلی جماعت ہوگی جس یہ اعزاز حاصل ہوگا اور پھر اسکے بعد کیا بلوچستان کے تمام مسائل حل ہوجائینگے اس سوال کا جواب تاحال حل طلب ہے ۔

لیکن گزشتہ ایک دہائی سے شورش کا سامنا کرنے والے صوبے بلوچستان میں انتخابی دنگل کا بگل بج چکا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں انتخابی گہما گہمی نظر آرہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بیانیہ میں تبدیلی لانے والے وفاق پرست سیاسی اکابرین ووٹرز کو کیسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ملنے والی ممکنہ کامیابی کے بعد طرز حکمرانی میں بھی کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ آنے والا وقت کریگا۔ 

کیا واقعی بلوچستان بدلے گا یا پھر یہ تبدیلی بھی صرف چند چہروں کی ہوگی لیکن اسکے لئے اس جماعت کو بہت محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ اس بیانیئے کہ بعد دوبارہ وفاقی جماعتوں کا رخ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔