قومی سلامتی کے سرکاری بیانیہ اور سویلین بیانیہ میں پہلی بار پنجاب سے ٹکراؤابھرا ہے۔پنجاب پاکستان کا سب سے طاقت ور صوبہ ہے جو آبادی کے53 فیصداور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے80 فیصد لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔پنجاب میں دونوں فریقوں کے درمیان یہ تضاد دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے چلا آ رہا تھاجو اب شدید ہو گیا ہے مگر لگتا ہے کہ مزید چند سالوں تک ان دونوں کے درمیان مقابلہ رہے گا۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS) نے90 کی دہائی کے وسط میں ایک اسٹڈی کا اہتمام کیا جس کا مقصد بھارت کے ساتھ تجارت شروع کرنے کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔یہ اسٹڈی ایک ممتاز اسکالر ڈاکٹر اعجاز نبی نے کی تھی جو اس نتیجہ پر پہنچے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر آنے سے پاکستان کو کم و بیش فائدہ ہو گا ۔
اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کی طرف سے جو اپنے منصب کے باوصف یونیورسٹی کے چانسلر تھے،لمز کے بعض ڈائریکٹرز کوجو سرکردہ بزنس مین تھے ،طلب کیا گیا۔ان میں سے ایک ڈائریکٹر نے بعد میں بتایا کہ لغاری نے اس اسٹڈی پر جو قومی مفاد میں نہیں تھی،ان کی سرزنش کی۔
اس ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ وہ” فوجی اسٹیبلشمنٹ” کا غصہ ہم تک پہنچا رہے ہیں۔اس کے چند سال بعد لاہور چیمبر آف کامرس نے بھی اس قسم کی ایک اسٹڈی کی اور یہ رائے ظاہر کی کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال ہونے چاہئیں۔
حتیٰ کہ جب چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ، مجھے اپنے ذاتی تجربے سے معلوم ہوا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا احساس تھا اور لاہور میں دوسری ایگری بزنس کانفرنس میں ایک بڑے وفد کو مدعو کیا گیا تھا۔
پنجاب کی طاقت کی بنیاد میں ،کاروباری اور صنعتی برادری کے حق میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔اب یہ برادری صوبے کا حکمران طبقہ ہے جو بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔وہ زمانہ گزر گیا جب وہ کھلی منڈی میں بھارت کے ساتھ مقابلہ کرنے سے گھبراتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ وہ چین کی سستی درآمدات کا ہر طرح سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نواز شریف کے موقف کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیئے۔90 کی دہائی میں انھوں نے واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت دے کر تعلقات معمول پر لانے کے لیے پہلی کوشش کی تھی جس کومشرف کی غلط کارگل مہم نے تباہ کر دیا۔
اس کے بعد بھارت کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ سرمایہ کاری کے تعلقات استوار کرنے کے لیے آصف علی زرداری کی کوششوں کو ممبئی حملوں سے ناکام بنا دیا گیا،جن کی منصوبہ بندی اور اس پرعمل درآمد لشکر طیبہ (LeT) نے کیا تھا۔
نواز شریف نے سخت گیر مودی کے رویہ میں نرمی لانے کے لیے دہلی میں ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی اور پھر انھیں لاہور میں اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی،مگر نواز شریف کی اس دوسری کوشش کو غیر ریاستی ادا کاروں کی طرف سے پٹھان کوٹ پر حملہ کر کے ایک بار پھر تباہ کر دیا گیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ اس حملہ کی منصوبہ بندی جیش محمد کے مولانامسعود اظہر نے کی تھی۔شروع میں بعض اطلاعات آئیں کہ مولانا اظہر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔مگر نہ تو کوئی تحقیقات ہوئیں اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا،اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بزعم خود مجاہد کہاں ہے۔
اب نواز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کا انتظام خفیہ ایجنسیوں نے کیا تھااور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ(نواز شریف) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6 کے تحت بغاوت کامقد مہ دائر کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔صحافی اعزاز سید کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل انھوں نے اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ، جنرل ظہیر الاسلام سے خفگی کا اظہار کیا تھا۔
اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے کہ وہ خارجہ پالیسی کو ڈھنگ سے نہیں چلا پا رہے،انھوں نے مختلف مغربی ملکوں اور امریکہ میں پاکستان کا کیس پیش کرنے کے لیے 22ارکان پارلیمنٹ کو گشتی سفیر کے طور پر بھیجا۔میڈیا کے بعض پنڈتوں کی طرف سے جو عام طور پر جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کی خدمت کرتے ہیں ،اس کوشش کا بہت مذاق اڑایا گیا۔ان ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے واپس
آکر بتایا کہ وہ جہاں بھی گئے انھیں بھارت کے اس بیانیہ کا سامنا کرنا پڑا کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان میں اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کو پناہ دیتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
نواز شریف نے ان معلومات اور کارگل اور پٹھان کوٹ کے واقعات کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر قومی سلامتی کے ایک اجلاس میں تشویش ظاہر کی ،مگر ان پالیسی اختلافات کو ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے جس وقت کا انتخاب کیا وہ جنرل راحیل شریف کی میعاد کے آخری دن تھے۔چنانچہ یہ ڈان لیکس کا موضوعی معاملہ بن گیا،جس کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے، وہ جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کے شدید رد عمل سے گھبرا گئے اور اپنے وفا دار وزیر اطلاعات، پرویز رشید کو قربان کر دیا۔
انھوں نے حال ہی میں میرے دوست سرل المیڈا کو ملتان میں ایک انٹرویو کے دوران بڑی ہوشیاری سے غیر ریاستی اداکاروں کی سرگرمیوں کے معاملہ کا ذکر کیا جو اس علاقے میں امن کے لیے خطرہ ہیں۔انھوں نے ممبئی حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے میں سست پیش رفت کا بھی حوالہ دیا ۔انھوں نے اپنے نکتہ ء نظر کی تائید میں کہا کہ چین اور روس، کے صدور،زی اور پیوٹن نے بھی ان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ میری معلومات کے مطابق،سرل نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے نواز شریف کوان معاملات پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنی پڑی۔بھارتی میڈیا نے فوراً اس معاملے کو اچھالنا شروع کر دیا جبکہ پاکستان میں انتہا پسند قوم پرستوں نے ان کی باتوں کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا۔
بعض لوگ تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم پر غدار کا ٹھپہ لگا دیا۔بد قسمتی سے پاکستان میں یہ عام روش ہے کہ اگر آپ قومی سلامتی کے معاملات پر اصل حکمرانوں سے اختلاف کریں تو آپ کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔
نواز شریف نے ایک جلسہ ء عام میں اس بات کی تصدیق کی کہ اُس اسٹوری میں جسے عرف عام میں ڈان لیکس کہا جاتا ہے،جو کچھ بھی چھپا وہ درست تھا ۔انھوں نے یہ کہہ کر صاف طور پر بتا دیا کہ وہ پاکستان کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کے استعمال کے خلاف ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پہلی بار یوں لگ رہا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی پر سول – ملٹری تقسیم ہے۔پاکستان میں سیاست دان کم و بیش اس سوچ کی حمایت کرتے ہیں کہ افغان طالبان اور بھارت کو نشانے پر رکھنے والے غیر ریاستی اداکاروں کا ساتھ دینا قومی مفاد میں نہیں ہے۔
وہ قومی سلامتی کو جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کے پس منظر میں نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے پس منظر میں دیکھتے ہیں ۔تاہم ،میں نواز شریف کے ان ناقدین سے جزوی طور پر اتفاق کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ وہ ان معاملات کو اس وقت اس وجہ سے اٹھا رہے ہیں کہ انھیں پاناما لیکس کے کیس میں سزا کا امکان نظر آ رہا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان پر الزامات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ،کیوں کہ ان کا نام پاناما لیکس میں نہیں تھا اور رقم کے جس لین دین کا حوالہ دیا گیا وہ ان کے بیٹوں اور ان کے دادا کا معاملہ تھا۔میں ان تمام ناقدین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کے خلاف اصل فرد جرم پاناما کیس نہیں ہے ، بلکہ یہ وہ قیمت ہے جو انھیں غیر ریاستی اداکاروں کے معاملہ پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ادا کرنی ہے۔
میں نے اوپر جن واقعات کا ذکر کیا ہے ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی پر سویلین اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف ہے۔بنگلہ دیش کا فوجی آپریشن ہو،بلوچستان کا فوجی آپریشن ہو۔
افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے جنرل ضیا کی پالیسی ہو یا جنرل بابر کی طرف سے افغان طالبان کی سرپرستی اور بھارت کے ساتھ قیام امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کا استعمال ہو،ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں قومی سلامتی کے نام پر جو کچھ دیا ،اُس نے ملک کو نقصان پہنچایا۔