’لیکن اس میں بڑی بات یہ ہے کہ حکومت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر عمل درآمد کیا جائے گا اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، تب جا کر اعتماد بحال ہو گا اور آزادانہ گفتگو ہو گی اور تعمیراتی رابطے کے لیے اعتماد کا ماحول بن جائے گا۔‘
چار رکنی کمیٹی کے ایک اور رکن سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے ارکان کی حکومتی ارکان سے باضابطہ ملاقات ہو گی اور تحریک طالبان پاکستان کی جانب کی اگر کوئی مثبت جواب آتا ہے تو اسی وقت حکمتِ عملی بن پائے گی کہ بات چیت کب کرنی ہے، کہاں کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات کے اعلان پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا جائزہ لینے اور پنجابی طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرنے کے سوال پر رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ابھی تک دونوں دھڑوں کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات حوصلہ افزا ہیں۔
’ایک دھڑے پنجابی طالبان نے خیرمقدم کر دیا ہے، مرکزی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جواب کا انتظار ہے اور انھوں نے اسے فوری طور پر رد نہیں کیا اور میرے خیال میں وہ باضابط کوئی اعلان کریں گے اور اگر وہ کمیٹی اور اس اقدام کو نہیں مانتے تو پھر کمیٹی کا کوئی کام ہی نہیں ہو گا اور غالباً ابھی تک حکومت کو بھی ان کے جواب کا انتظار ہے اور اس کے بعد مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے باقی کارروائی ہو گی۔‘
کمیٹی کے ممکنہ مینڈیٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ہم حکومت میں شامل نہیں ہیں اور ہم تو ہو سکتا ہے کہ صرف رابطے بنائیں اور بالآخر طالبان اور حکومت کو خود ہی بات کرنی پڑے گی۔
وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات کو پسِ پشت ڈال کر مذاکرات کو آخری موقع دینا چاہتے ہیں اور طالبان سے مذاکرات کے لیے چار رکنی قائم کرنے اور مذاکرات کے عمل کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کیا۔
اس کمیٹی میں وزیراعظم کے قومی امور پر معاون خصوصی عرفان صدیقی، انٹیلی جنس بیورو کے سابق افسر میجر محمد عامر، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی اور افغانستان میں سابق پاکستانی سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں، جبکہ کمیٹی کی معاونت وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان کریں گے۔