ورلڈ کپ فٹبال کے مقابلوں میں کوئی ٹیم کیسا کھیلے گی اس کے بارے میں پیشگوئیاں کوئی نئی بات نہیں۔ یقین نہیں تو جوئے بازی کی صنعت سے پڑتال کر لیجیے۔
لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں وہ ذرائع جو مالیاتی منڈیوں پر نظر رکھا کرتے تھے نہ صرف ایسی پیشگوئیاں کر رہے ہیں بلکہ ان کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔
گذشتہ مہینے سوئس بینک یو ایس بی نے میزبان ملک روس میں سرمایہ کاری کے مواقع پر مرکوز ایک رپورٹ جاری کی لیکن رپورٹ کے صفحہ تین پر بینک کہتا ہے کہ سنہ 2018 کا ورلڈ کپ لگار تار دوسری مرتبہ بھی جرمنی کے جیتنے کے امکان ہیں۔ اگر جرمنی جیتا تو یہ پانچویں بار ہو گا کہ اس نے فٹبال کا عالمی کپ جیتا ہو۔
بینک کے مطابق یہ پیشگوئی تجزیہ کاروں کی ایک 18 رکنی ٹیم نے کی ہے جس نے معاشی ریاضیات کے حساب کو استعمال میں لاتے ہوئے کمپیوٹر پر دس ہزار خاکے دیکھے جنھیں عام طور پر سٹاک مارکیٹ کی پیشگوئی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا پیشنگوئی کی جا سکتی ہے؟
یہ کام ٹیکنالوجی کی معراج ہے لیکن ماہرینِ معاشیات کافی عرصے سے مطالعہ کر رہے ہیں کہ میدان کے باہر موجود عوامل کیسے میچ کے نتیجے پر اثرانداز ہوتے ہیں؟
خاص طور پر اگر ہم ورلڈ کپ کی بات کریں تو تجزیہ کرنے والے یہ دیکھتے ہیں کہ کسی ملک کی آبادی اور اس کی فی کس مجموعی پیداوار کتنی ہے۔
ماہرین کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ان چیزوں کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اس میں ایک چھوٹی سی اور بات بھی ہے۔ ’ایسے معاشی اشارے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ثبوت مل چکا ہے کہ وہ میچوں کے نتیجے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آبادی، فی کس مجموعی ملکی پیداوار اور بنیادی ڈھانچہ ان اشاروں میں سے کچھ ہیں۔‘
لیکن ‘سوکرنومکس’ نامی کتاب میں فٹبال کے کھیل پر معاشی زاویے سے نظر ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے شریک مصنف خبردار کرتے ہیں کہ اب بھی بےترتیبی یا چیزوں کا الٹ پلٹ ہونا میچ کے نتائج پر زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
دسمبر سنہ 2017 میں ایک مقالہ شائع ہوا جس میں سیزیمینسکی نے ہیمبرگ یونیورسٹی میں معاشیات کی ماہر پروفیسر میلینی کرایوس کے ساتھ مل کر سنہ 1950 سے سنہ 2014 کے درمیان کھیلے گئے 32,000 ہزار سے زیادہ بین الاقوامی میچوں کا تجزیہ کیا۔
’سب کے لیے یکساں اپروچ نہیں چلتی‘
سیزیمینسکی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘معاشی اشارے، فٹبال کے تجربے اور ہوم گراؤنڈ سے ملنے والا فائدے سے صرف 30 فیصد میچوں پر اثرانداز ہوئے۔
لہٰذا کسی ایسی ٹیم کا میچ جیت لینا جس کی جیت کا امکان کم ہو جیسے آئس لینڈ نے سنہ 2016 کے یورو کپ میں انگلینڈ کو نکال باہر کیا تھا، ایسے امکانات کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔‘
جب یورو گوئے نے سنہ 1950 میں دوسری بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو اس وقت اس کی آبادی 30 لاکھ سے کم تھی۔
یہ واحد استثنائی حالت ہے ورنہ جن جن ممالک نے ورلڈ کپ جیتا ہے (ارجنٹائن، برازیل، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین) ان کی آبادی بھی زیادہ ہے اور آمدنی کے لحاظ سے بھی وہ بلند درجے پر ہیں۔
تاہم دیگر عالمی مقابلوں میں ناقابلِ یقین فتوحات کے باوجود امریکہ اور چین زیادہ آبادی اور زیادہ آمدن والے قاعدے سے مستنثنیٰ ہیں۔
چین نے صرف ایک بار سنہ 2002 میں ورلڈ کپ فائنل کے مقابلوں کے لیے کوالیفائی کیا تھا لیکن وہ گروپ سٹیج سے آگے نہیں جا سکا تھا۔
دونوں ممالک نے اولمپک کھیلوں میں بہت زیادہ میڈلز جیتتے ہیں۔ اسی طرح روس کا ورلڈ کپ کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں اور وہ پچھلے پانچ ٹورنامنٹس میں تین بار کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
سوئے ہوئے دیو
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی ملک کی مالی حالت کا کھیل کے مقابلوں میں اس ملک کی جیت سے اثر کم ہی ہوتا ہے لیکن سنہ 2014 میں عالمی مشاورتی فرم پی ڈبلیو سی نے کہا تھا ‘ایسے دکھائی دیتا ہے کہ امیر ملک عموماً غریب ممالک سے زیادہ بہتر فٹبال نہیں کھیلتے۔‘
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اولمپک کھیلوں سے موازنہ کریں تو فٹبال پریکٹس میں زیادہ مہنگا کھیل نہیں ہے۔
گلی محلوں میں فٹبال کھیلنے کے ہنر کو آسانی سے سیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن جرمنی کے ماہرِ معاشیات کیلمنٹ جو لندن میں کارپوریٹ فناس فرم فیڈینٹے میں سرمایہ کاری کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ بڑی اقصادی مسائل سے متعلق عوامل پر توجہ دینا اہم ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘وہ ملک جو بہت غریب ہیں ان کے لیے بڑے سٹیج پر کامیابی کے ساتھ تربیتی اور طبی ڈھانچہ قائم کرنا اور اسے چلانا مشکل کام ہوتا ہے۔
’یقیناً اگر کسی ملک کے شہریوں کی تعداد زیادہ ہے تو وہاں ٹیلنٹ بھی زیادہ ہو گا۔ لہذا عالمی آبادی کی شرح فیصد کے حساب سے کسی ملک کی آبادی فٹبال میں کامیابی کا تعین کرنے والا عامل ہوتا ہے۔
مختلف عوامل کا یکجا ہونا
کلیمنٹ نے سنہ 2014 میں درست پیشگوئی کی تھی کہ ورلڈ کپ کا فائنل جرمنی جیتے گا۔ انھوں نے جرمنی اور برازیل کے درمیان سیمی فائنل کھیلے جانے کی بھی پیشگوئی کی تھی۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جرمنی برازیل کو ایک کے مقابلے میں سات گول سے خوفناک شکست سے دوچار کرے گا۔ سنہ 2018 کے لیے ان کی پیشگوئی ہے کہ اس بار فرانس ورلڈ کپ جیتے گا۔
وہ لکھتے ہیں’ کسی ملک کی دولت اور فٹبال میں اس کی کامیابی یک رخی نہیں۔ بہت زیادہ امیر ممالک جیسے سوئٹززلینڈ اور لگزمبرگ کے پاس فٹبال کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لیے پیسہ ہو گا لیکن وہ اپنی نوجوان ٹیم کے لیے بہت زیادہ نوجوانوں کو بھرتی نہیں کر سکتے۔’
‘فٹبال اب بھی وہ کھیل ہے جو ورکنگ کلاس اور متوسط طبقہ کھیلتا ہے۔ اگر کوئی ملک بہت امیر ہو تو اس کے نوجوانوں کی ترجیح مہنگے مشاغل یا محض وڈیو گیمز میں ہو گی نہ کہ باہر گلیوں میں فٹبال کھیلنے میں۔’
چین ترقی کر رہا ہے؟
سنگاپور دنیا کے امیر ترین ممالک میں جن وجوہات کی بنا پر شامل ہوا ان میں دنیا کے بڑے تجارتی راستوں کے بیچوں بیچ اس کا سٹریٹیجک جغرافیائی محلِ وقوع شامل ہے۔ یہ ماڈل روس یا بوٹسوانا کے لیے بیکار ہے۔ بالکل اسی طرح یوراگوئے نے فٹبال میں جو کچھ کیا وہ خود بخود کسی دوسرے مقام پر نہیں چل سکتا۔
تاہم عالمی فٹبال میں ان کی تحقیق کھیل میں انحراف کا ثبوت فراہم کرتی ہے جسے معاشیات میں یکجا کا مفروضہ بھی کہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ امیر اور غریب ملکوں میں تفاوت کا کم ہونا ہے۔
‘کمزور ممالک مجموعی طور پر کھیل کو بہتر بنا رہے ہیں اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اگلا ورلڈ کپ جیت جائیں گے، لیکن اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ زیادہ آبادی والے ممالک اگر نئے ٹیلنٹ کی تعمیر و ترقی کرتے رہیں تو وہ ایک دن بہت مضبوط ٹیم بنا سکتے ہیں’۔
چنانچہ چین میں فٹبال کے شائقین کو امید رکھنی چاہیے جیسا کہ صدر شی جی پنگ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ چین کو کھیلوں میں ایک بڑا ملک بنانے کے لیے سنہ 2025 تک نوجوانوں کی 50,000 اکیڈمیاں بنائی جائیں گی۔
فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین وہ ملک ہے جہاں بہت زیادہ لوگ فٹبال کھیل رہے ہیں۔ یہ تعداد 26 ملین ہے جس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
تیسرے نمبر پر انڈیا ہے جو فی الوقت ‘خراب کھیل رہا ہے۔‘ ایک ارب سے زیادہ آبادی اور دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہونے کے باوجود انڈیا کبھی فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل مقابلوں تک نہیں پہنچا۔ اس نے سنہ 1950 میں برازیل میں کھیلے جانے والے مقابلوں کے لیے کوالیفائی کیا تھا لیکن ٹورنامنٹ شروع ہونے سے قبل وہ اس سے علیحدہ ہو گیا تھا۔
لیکن انڈیا جسے کرکٹ کے حوالے سے زیادہ بہتر جانا جاتا ہے اب فٹبال میں بھی بہتر ہو رہا ہے۔ فیفا رینکنگ میں اس کا نمبر 97 ہے جو سنہ 1993 میں ایسی رینکنگ کے آغاز کے بعد سے انڈیا کا سب سے اونچا درجہ ہے۔
سنہ 2026 میں فٹبال کے عالمی مقابلوں میں موجود 32 کی بجائے 48 ٹیمیں شرکت کریں گی اور ہو سکتا ہے کہ ایشیائی ممالک کی نمائندگی چار کی بجائے آٹھ ٹیمیں کریں۔
لیکن حیران کن باتیں بھی ممکن ہیں۔ جیسے کہ روس میں سنہ 2018 میں عالمی کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں اس وقت ہوا جب آئس لینڈ نے پہلی بار اس گروپ میں ٹاپ کیا جس میں کروئشیا، یوکرین اور ترکی شامل ہیں یا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ شام کی ٹیم نے جہاں افراتفری کا عالم ہے، ان مقابلوں میں شرکت کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔
سیز مینکسی کہتے ہیں ‘فٹبال اب بھی انتہائی ناقابلِ پیشگوئی کھیل ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم آخر اتنی پرواہ کیوں کرتے؟’
جرمنی کے فٹبال شائقین کے لیے ایک نوٹ: سوئٹزرلینڈ کے بینک یو ایس بی نے آخری مرتبہ فٹبال ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درست پیشگوئی آ ج سے 12 سال پہلے سنہ 2006 دوہزار چھ میں کی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو اور فرنینڈو دو رتے