یہ ورلڈ کپ دو ہزار چودہ ہے، ایک لمبے سفر کے بعد برازیل کولمبیا کے ساتھ کواٹر فائنل کھیل رہی ہے۔ میچ کا 86 واں منٹ جاری ہے اور برازیل 1-2 سے یہ میچ جیت رہی ہے۔
برازیلی کوچ لوئس فلپ سکولاری کی نظر بار بار میدان میں لگے گھڑیال کی طرف جارہی ہے اور وہ اپنے کھلاڑیوں کو انگلیوں سے چار منٹ اور گیند اپنے پاس رکھنے کے اشارے کر رہے ہیں۔ اگر سکور یہی رہا تو برازیل کے سیمی فائنل کھیلنے میں اب صرف چار منٹ باقی ہیں۔ ان سب کے دوران مڈفیلڈر نیمار کو فارورڈ پاس دیتا ہے اور مخالف ٹیم کا ڈفینڈر خوان زونیگا پچھے سے آکر نیمار کی پیٹ پر اچھلتے ہوئے گھٹنا مارتا ہے۔ اگلے ہی لمحے نیمار زمین پر مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور برازیلی کپتان مارسیلو دیوانوں کی طرح سٹریچر کے اشارے کر رہے ہیں۔ آدھی ٹیم نیمار کے گرد جمع ہے اور باقی ریفری سے زونیگا کو ریڈ کارڈ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔
کچھ ہی منٹ بعد نیمار کو سٹریچر پر میدان سے باہر لے جایا جاتا ہے۔ برازیل کے مداحوں سے کھچا کھچ ہوم گراؤنڈ میں مکمل خاموشی ہے اور برازیلی کھلاڑی سکتے میں نیمار کے سٹریچر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انگلش کامینٹیٹر مائک پر چیخ چیخ کر اپنے ساتھی سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ‘کیا برازیل کے ورلڈ کپ کی امیدیں بھی سٹریچر پر باہر جارہی ہیں؟’
برازیل نے نیمار کے بغیر وہ چار منٹ تو نکال لیے لیکن سیمی فائنل میں جرمنی نے جو ان کے ساتھ کیا وہ برازیلی فٹبال کی تاریخ میں ان کی بد ترین شکست تھی۔ سیمی فائنل میں برازیلی کھلاڑی بوکھلائے ہوئے نظر آئے، ان کے کھیل سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کا جسم ان کے زہن کا ساتھ نہیں دے رہا۔ جرمنی سے 1-7 سے شکست کے بعد فٹبال کو مذہب ماننے والے برازیلی مداحوں نے ملک بھر میں مظاہرے شروع کر دیے۔ ٹیم کا میڈیا ٹرائل شروع ہوا، نیمار تین ماہ کے لیے فٹبال سے باہر ہوگئے اور برازیل ورلڈ کپ سے۔
برازیل کے کپتان مارسیلو نے کچھ عرصے بعد ایک مقامی جریدے سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب نیمار کو سٹریچر پر باہر لے جایا جا رہا تھا تو وہ منظر ان کے اندر خوف پیدا کر رہا تھا۔
کسی بھی کھلاڑی کے زخمی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیم اس کے بغیر چل نہیں سکتی۔ لیکن ایسے موقعوں پر زیادہ تر ٹیم پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے لمحات میں اگر ٹیم کے پاس اس کھلاڑی یا اس کھلاڑی سے جڑی فارمیشن اور حکمتِ عملی کا نعم البدل موجود ہے تو زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
لیکن برازیلی کپتان کی بات وہ ٹیمیں اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں جن کے پاس دنیائے فٹبال کے خطرناک ترین سٹرائیکر موجود ہیں۔ ان ٹیموں کی سٹریٹیجی انہی کھلاڑیوں کے گرد گھومتی ہے۔
جیسا کہ پرتگال کی گول کرنے کی پوری حکمتِ عملی ونگرز کے رونالڈو کو ہیڈر یا فری کک دینے کے زیادہ سے زیادہ مواقع بنانے کے گرد گھومتی ہے۔ اور ارجنٹینا کی مڈفیلڈ کو میسی کے بالکل نزدیک رہ کر کلوز شارٹ پاسز دینے کا کہا جاتا ہے۔
حالانکہ ان ٹیموں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے یہ ‘ہائی رسک فٹبال’ کھیل رہے ہیں لیکن اس حکمتِ عملی کے نتائج عموماً اچھے ہی نکلتے ہیں۔
فٹبال ایک ٹیم سپورٹ ہے۔ اس میں ایک کھلاڑی کو مسیحا اور امید کی کرن بنا کر میڈیا کے سامنے تو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن میدان میں ان کا مقابلہ مخالف ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں پرتگال کے رونالڈو اور سپین کی ٹیم کے درمیان دیکھا گیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ رونالڈو سپین کے گیارہ کھلاڑیوں کے خلاف کھیل رہے ہیں۔
لیکن ایک کھلاڑی ٹیم کا مورال اور کھیل کا معیار تو بلند کرسکتا ہے لیکن اس سے ورلڈ کپ یا ایک پورا ٹورنامنٹ جتوانے کی امید رکھنا اس کھلاڑی کے ساتھ بلکہ پوری ٹیم کے ساتھ نا انصافی ہے۔