|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2018

تربت :  ضلع کیچ میں اس دفعہ انتخابات اور انتخابی عمل پہلے انتخابات سے یکسر منفرد اور مختلف ہونے کا گمان ، حلقہ این اے 271کی نشست پر معروف اسکالر جان محمد دشتی کے میدان عمل میں اترتے ہی کیچ کا باشعور طبقہ اور مدتوں انتخابات سے لاتعلق رہنے والے لوگ ایک دم میدان عمل میں سرگرم ہو گئے ہیں اور ان کی سرگرمی دیکھ کر قوی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس دفعہ جان محمد دشتی کو مات دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا ۔

کیچ کا باشعور طبقے کا تجزئیہ یہی ہے کہ پہلے انتخابی سرگرمیوں میں وہ بات نہیں تھی جو بات اب کے انتخابات میں ہوگی ،کیوں کہ اب کی بار کیچ کا باشعور طبقہ برائے راست جان محمد دشتی کی پیروی میں میدان عمل میں اتر چکا ہے جو برسوں سے مایوسی اور لاتعلقی کے خول مین بند تھا ، جس کی ایک واضع مثال سوشل میڈیا میں پڑھے لکھے طبقے کا جان محمد دشتی کی حمایت میں سرگرم رہنا ہے ۔

ایک باشعور نوجوان نے اپنے ایک خوبصورت تجزئیہ میں کہا ہے کہ جان محمد دشتی موجودہ بلوچ صورتحال کے ؂تناظر میں پیاسے کے لیے ٹھنڈے پانی کے کنویں سے کم نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے دل میں تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ کبھی انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گا مگر آج جب جان محمد د دشتی میدان میں اترے ہیں تو ان کے پیچھے چلنا اور ان کی حمایت کو فرض سمجھنے لگا ہوں اور یہ خیال بلوچ نئی نسل اور بلوچ باشعور طبقے کا بھی ہے اور وہ بھی موصوف کی حمایت کوفرض سمجھنے لگی ہے ہے ۔

اس لیے عام تجزئیہ یہی ہے کہ آئیندہ انتخابات میں جان محمد دشتی کو شکست دینا شاید نا ممکن ہو کیونکہ اس دفعہ کہیں پر بھی ہر ایک بلوچ دل میں جان محمد دشتی کے لیے نرم گوشہ لیکر میدان میں اتر آیا ہے اور ایک محفوظ اور پر امن سیاسی جہدو جہد میں مصروف ہو چکا ہے ۔

عام تجزئیہ یہ بھی ہے کہ کیچ ایک ایسا خطہ ہے جہانں سیاست سے زیادہ بلوچ روایت مضبوط ہیں اور جان محمد دشتی ایک عزت دار روایتی بلوچ بھی ہیں اور انہیں بلوچ اگر ووٹ نہ کریں گے تو انہیں ملال ہو سکتا ہے اس لیے اس دفعہ قوی امکان یہی ہے کہ جان محمد دشتی کی پیروی میں ہزاروں بلوچ انتخابی عمل میں سرگرم ہوگئے ہیں۔