|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2018

اسلام آباد : کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے پاکستان میں آزادی صحافت کی صورتحال کو پیچیدہ اور غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ایڈیٹرز اور صحافی غیر واضح قسم کا دباؤ محسوس کرتے ہوئے خوساختہ سنسرشپ (Self Sensorship) پر مجبور ہیں۔ 

بعض میڈیا اداروں کو اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹوں پر مبنی شکایات ہیں۔ اس کا انکشاف سی پی این ای کے صدر عارف نظامی کی صدارت میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں کیا گیا۔ 

قرارداد میں تمام متاثرہ اخبارات کے ایڈیٹروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں سی پی این ای سے رجوع کریں تاکہ تمام فریقوں کی مشاورت سے اس کا تداک کیا جا سکے۔ قرارداد میں بلوچستان میں میڈیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان میں غیر اعلانیہ سنسرشپ کی کیفیت مسلط ہونے کی وجہ سے جمہوری عمل اور شفاف انتخابات کے ضمن میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ 

اجلاس میں ماروی سرمد، گل بخاری اور اسد کھرل سمیت مختلف صحافیوں کی جانب سے مختلف طریقوں سے خوف و ہراس اور تشدد کا شکار کئے جانے کی شکایات پر بھی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور تمام ریاستی و غیر ریاستی اداروں سے اس قسم کے غیر جمہوری اقدامات کو نہ دہرانے کی اپیل کی ہے۔ 

دوران اجلاس نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور قومی تاریخ و ادبی ورثہ بیرسٹر علی ظفر نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ انہوں نے ایڈیٹروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت آئینی تقاضوں کے عین مطابق آزاد، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو شدید خطرات درپیش ہیں جس پر میڈیا بھی بحث و مباحثہ کرے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ شدید قسم کی بڑھتی ہوئی اقتصادی عدم مساوات، نفرت انگیز نسلی، فرقہ وارانہ اور سیاسی عدم برداشت اور میڈیا کے بعض حصوں میں من گھڑت اور جھوٹی خبروں کی اشاعت کی وجہ سے جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مسلمہ اخلاقیاتی صحافت پر مبنی غیر جانبدار اور آزاد میڈیا کی ملک کو اشد ضرورت ہے کیونکہ آزاد، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے میڈیا کا بنیادی اور اہم ترین کردار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ٹیلی ویژن میں تمام سیاسی پارٹیوں کو مساوی وقت دیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ میڈیا اور عوام کو سیاسی پارٹیوں کے منشور اور ملک کو درپیش اقتصادی مسائل پر بھی گفتگو اور بحث کرنی چاہئے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے سی پی این ای کے دیرینہ مطالبے کو منظور کرتے ہوئے اخبارات و جرائد کے رجسٹریشن کی میعاد تین سال سے بڑھا کر پانچ سال مقرر کرنے کا اعلان کیا جبکہ اے بی سی سرٹیفکیٹ کی تجدیدی میعاد بھی تین سال مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ 

انہوں نے اخبارات و جرائد کے لئے سرکاری اشتہارات کے نرخوں کو کنزیومر پرائز انڈیکس (CPI) سے منسلک کرنے کے لئے کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا اور ایڈیٹروں اور صحافیوں کو درپیش مسائل جلد از جلد حل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ سی پی این ای ذرائع ابلاغ میں مدیران کی واحد نمائندہ تنظیم ہے جو صحافیوں، اخبارات اور میڈیا اداروں کی فلاح و بہبود اور انہیں درپیش مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے۔ 

اس سے قبل اجلاس میں سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی میں ہی جمہوریت کی بقاہے لیکن عدم برداشت پر مبنی رویہ انتشار کا باعث بن سکتا ہے جس سے عام انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اجلاس میں سی پی این ای کے تنظیمی امور کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ 

اجلاس میں سی پی این ای کے صدر عارف نظامی، نائب صدور اکرام سہگل، ایاز خان، رحمت علی رازی، طاہر فاروق، عارف بلوچ، اطلاعات سیکریٹری عدنان ملک، اراکین اعجازالحق، انور ساجدی، غلام نبی چانڈیو، کاظم خان، عبدالرحمان منگریو، حیدر امین، خلیل الرحمان، مظفر اعجاز، احمد شفیق، اکمل چوہان، علی احمد ڈھلون، بشیر احمد میمن، فقیر منٹھار منگریو، محمود عالم خالد، ذوالفقار احمد راحت، میاں فضل الٰہی، محمد طاہر، ممتاز احمد صادق، نشید راعی، سردار نعیم، شکیل احمد ترابی، شمس الضحیٰ، وقاص طارق فاروق، یحییٰ خان سدوزئی، زبیر محمود خالد، کاشف حسین میمن، راؤ خالد محمود، وزیر زادہ، راشد اقبال، عماد رشید، محفوظ بھٹی، سید نقی کاظمی، عبدالسلام باتھ، حافظ ثناء اللہ، راجا کاشف حسین ، سید سفیر حسین شاہ، غلام شبیر، ملک افتخار احمد اعوان، نوابزادہ خورشید ، قصور جمیل روحانی، غلام حسین محب، فضل حق، منزہ سہام اور زاہدہ عباسی سمیت کثیر تعداد میں رکن مدیران اور صحافیوں نے شرکت کی۔