|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2018

بلوچستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قوم پرست رہنما روایتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف رہے ہیں، سوائے 1970 کی دہائی کے جس میں نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) عروج پر تھی۔

بلوچ عوام، سیاسی طور پر، تین اقسام میں تقسیم ہوسکتے ہیں جن میں پہلی قسم کے افراد پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں، دوسری انتہا پسند اور تیسری قسم الجھنوں کے شکار گروہ کی ہے جسے ہم ایک ’بدلتا ووٹر‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

بلوچستان میں اس وقت 3 بڑی قوم پرست جماعتیں آئینی حدود میں رہتے ہوئے سیاست کر رہی ہیں جن میں ایک بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) عوامی، اور نیشنل پارٹی (این پی) شامل ہیں، اور یہ تنیوں ہی جماعیتں ایک دوسرے کی سیاسی مخالف ہیں۔

سردار اختر مینگل کی سربراہی میں کام کرنے والی بی این پی بلوچستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، 1997 میں سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، تاہم ایک سال بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک یہ جماعت دوبارہ اقتدار میں نہیں آئی۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے قیام کے بعد سے صوبے میں قوم پرستوں کی حالت بدترین ہوگئی ہے، اور اس حوالے سے کچھ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے صوبے میں بڑے پیمانے پر ’محرومی کارڈ‘ کا استعمال دیکھا جاسکتا ہے۔

کوئٹہ میں مقیم ایک صحافی جلال نورزئی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں محرومیاں اب ایک آلہ کار بن چکا ہے، جبکہ نئی سیاسی جماعت بی اے پی پر الزام ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بادشاہ‘ بنانے والے اگر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنا سکتے ہیں تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ آئندہ انتخابات کے بعد صوبے میں اپنا وزیرِاعلیٰ اور گورنر نہیں لاسکتے؟

رمضان المبارک کے مہینے میں سردار اختر مینگل نے کوئٹہ میں صحافیوں کی ایک جماعت کو خبردار کیا تھا کہ ’اگر اسٹیبلشمنٹ نے 2013 کے الیکشن کی طرح ان کی جماعت اور عوام کے مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنے گھر پر بیٹھ جائیں گے اور اپنے کارکنان کو اجازت دیں گے کہ ان کا جو دل چاہے وہ کریں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

سردار اختر مینگل کو ظاہری طور پر دوسرا راستہ نظر نہیں آتا اور وہ صرف یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی جماعت کے کارکنان گزشتہ 2 دہائیوں سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کا ماننا ہے کہ سردار اختر مینگل اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کی جماعت کو اقتدار میں لایا جائے۔

بی این پی کوئٹہ میں اپنے 2 حلقوں میں محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) سے شکست سے دوچار ہوئی تھی جہاں وہ ماضی میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ نئی سیاسی جماعت بی اے پی صوبے میں 20 نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور وہ اس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) سے اتحاد کرسکتی ہے۔ یہ سیاسی جماعت اہم امیدواروں پر مشتمل ہے جو نئی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالمنان کاکڑ کا کہتے ہیں کہ ’بی اے پی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ذیلی ٹیم ہے، کیونکہ جو سیاسی جماعت مرکز میں اپنی حکومت قائم کرتی ہے تو وہ بلوچستان میں بھی اپنی حکومت قائم کرتی ہے۔

کوئٹہ کے ایک اور سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر خور بلوچ کا کہنا تھا کہ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے بائیں جانب سیاست دان بلوچ قومیت کی سیاست میں خلا کو پُر کرنے کے بجائے اسے مزید بڑھا دیتے ہیں۔

1988 میں جب بلوچ قوم پرستوں نے الیکشن میں حصہ لیا تو ان کے حامیوں نے امید باندھتے ہوئے مہمات چلائیں، اور ان میں ایک ضلع کیچ کے سیاسی کارکن طاہر بلوچ بھی تھے، جو ایک تصوراتی سیاسی کارکن تھے اور اب 50 سال کی عمر تک پہنچنے والے ہیں، اور بلوچستان یونیورسٹی میں ایک پروفیسر ہیں۔

پروفیسر طاہر بلوچ نے اپنے نظریے کو تبدیل کیا اور اپنی سیاسی مہم کے حوالے سے بتایا کہ ان کی جدوجہد ایک قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کامیابی دلانے کے لیے تھی جو اس وقت بلوچ نوجوانوں کے درمیان ایک گہرا اثر رکھتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ ہم نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی تمام ضروری اشیا فروخت کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقوم کو انتخابی مہم میں خرچ کیا تھا کیونکہ میری طرح ہر نوجوان غربت کو رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہتا تھا اور بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کو صوبے میں کامیاب بنانے کے لیے پُر عزم تھا۔

اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے پروفیسر طاہر بلوچ کہتے ہیں کہ ’ہمیں کسی نے بتایا کہ کہیں دور پہاڑوں پر ایک ضعیف شخص موجود ہے جو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آسکتا، تو ہم اس شخص کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر پہاڑوں پر بنے اس کے گھر سے لے کر آئے اور اس پورے عمل میں ہمیں 8 گھنٹے لگے اور انہوں نے اپنا ووٹ ڈالا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کامیابی دلوا کر صوبائی اسمبلی میں بھیجا جس کے بعد وہ نواب اکبر خان بگٹی کی کابینہ میں صوبائی وزیرِ صحت رہے۔

پرفیسر طاہر بلوچ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے انہیں اور دیگر سیاسی کارکنان کو قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر میں نے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونا کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو میں آج کے دن میں پریشانیوں کا سامنا کر رہا ہوتا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے لیے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگادیا تھا، تاہم پھر بھی میں حالات سے نبرد آزما ہونے والے خوش قسمت افراد میں شامل ہوگیا جبکہ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو آج بھی اپنی جدوجہد کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب پردہ سامنے آتا ہے تو سیاسی کارکنان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہی ہوتا ہے، تاہم اس حوالے سے پروفیسر طاہر بلوچ کا غم اپنے حلقہ احباب کے درمیان غیر معمولی نہیں ہے۔

2013 کے انتخابات میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک مرتبہ پھر کیچ سے الیکشن میں کامیاب ہوئے، اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے پہلے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ اس اعزاز کے باوجود بلوچ عوام کے لیے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو احساس ہوگیا ہے کہ لوگوں کا ان پر اعتماد ختم ہوچکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ 2018 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔

بشکریہ ڈان نیوز اور محمد اکبر نوتزئی