میں عمومی طور پر تو فٹبال زیادہ نہیں دیکھتی لیکن ہر چار سال بعد ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے میرا جوش عروج پر ہوتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ جس طرح فٹبال کے مداح اپنے پسندیدہ کھیل کو دیکھنے کے لیے متحد ہوتے ہیں، ایسا شاید ہی کسی اور کھیل میں ہوتا ہو۔
شاید کچھ لوگ فٹبال سے اس جنون کی حد تک لگاؤ کو کٹر وطن پرستی سمجھتے ہوں لیکن میرے نزدیک یہ کھیل نسل، رنگ، ذات اور مذہب سے بڑھ کر ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص قومیت کے لحاظ سے عرب نژاد فرانسیسی ہو لیکن اس کا آبائی ملک الجزائر ہو اور وہ ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کر لے، تو شاید وہ شخص پیرس کی مشہور سڑک شانزے لیزے پر فرانس کے بجائے الجزائر کا جھنڈا لہراتا ہوا پایا جائے گا۔
اسی تناظر میں جب گذشتہ ماہ میں فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلے دیکھنے روس گئی تو ایسا نہیں تھا کہ بحیثیت پاکستانی میرے ملک کی ورلڈ کپ میں عدم شمولیت مجھے کسی اور ملک کی حمایت کرنے سے روک سکتی تھی۔
اور ذاتی طور پر میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت آسان تھا کہ میں کس ملک کی حمایت کروں۔ کیونکہ میں ہمیشہ سے لاطینی موسیقی اور وہاں کی ثقافت کی مداح رہی ہوں اور پھر 2002 سے کسی لاطینی امریکی ٹیم نے ورلڈ کپ نہیں جیتا تھا تو میری ہمدردیاں اس براعظم کے ممالک کے ساتھ تھیں۔
کی مصنفہ (دائیں جانب) نے ورلڈ کپ میں لاطینی امریکہ کے ممالک کی حمایت کا فیصلہ کیا
ورلڈ کپ کے میچوں میں شرکت کے بعد جب میں پاکستان واپس آئی تو میری دوست خولہ نے میرے فٹبال کے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں روس جیسا جوش و جنون کراچی کے علاقے لیاری میں دیکھنا چاہوں گی تو میں فوراً راضی ہوگئی۔
لیاری کراچی کا سب سے پرانا علاقہ ہے اور عام طور پر اس کی شہرت کی وجہ اس علاقے کے جرائم پیشہ عناصر اور گینگ وارز ہیں لیکن ورلڈ کپ کے دوران وہاں جرائم کے تناسب میں کمی دیکھنے میں آتی ہے اور اسے ‘کراچی کے سب سے خطرناک علاقہ’ کے بجائے ‘منی برازیل’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مضمون کی مصنفہ ورلڈ کپ میں ماسکو کے لوزہنیکی سٹیڈیم کے باہر
جب ہم وہاں پہنچے تو لیاری سے تعلق رکھنے والے ہمارے گائیڈ اور فلمساز احسن شاہ ہمیں لیاری کی مشہور ‘بومباسا سٹریٹ’ لے گئے جو کہ وہاں کے ایک رہائشی امجد میامی کے دادا سے منسوب ہے جو مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کے شہر مومباسا سے ترکِ وطن کر کے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔
مومباسا سٹریٹ فٹبال ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے لیاری کی چند مشہور جگہوں میں سے ایک ہے۔ اس گلی میں جگہ جگہ مختلف ممالک کے جھنڈے دیواروں پر بنائے گئے تھے اور میچوں کے سکور کا ریکارڈ لکھا گیا تھا۔ لیکن ان تمام جھنڈوں کے درمیان نمایاں طور پر پاکستان کا سبز ہلالی جھنڈا بنا ہوا تھا۔لیاری میں برازیل اور ارجنٹینا سب سے مقبول ٹیمیں ہیں
اسے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ روس میں بھی کچھ ایسا ہی تھا اور دنیا بھر سے آئے ہوئے شائقین، جن کی ٹیم ورلڈ کپ کا حصہ بھی نہیں تھیں لیکن وہ جہاں جاتے اپنے ملک کے جھنڈے ساتھ لے جاتے۔
لیکن جس ملک کا جھنڈا وہاں سب سے زیادہ مقبول تھا، وہ تھا برازیل اور دوسرے نمبر پر تھا ان کے روایتی حریف ارجنٹینا کا جھنڈا۔
میں نے وہاں لوگوں سے سوال کیا کہ برازیل ہی وہاں پر کیوں اتنا مقبول ہے تو مجھے جواب دیا گیا کہ ‘وہ شکل و صورت میں ہمارے جیسے ہیں۔’
کیونکہ میں نے روس میں برازیل کا کوسٹاریکا سے ہونے والے مقابلہ سٹیڈیم میں دیکھا تھا، میں نے فوراً تہیہ کر لیا کہ میں برازیل کا اگلا میچ دیکھنے لیاری آؤں گی۔لیاری کے باسی مختلف محلوں میں بڑی سکرینز پر ورلڈ کپ دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں
مومباسا سٹریٹ کے بعد احسن ہمیں لیاری کے مشہور میدان بھیا باغ لے گئے جہاں دو مقامی ٹیمیں فٹبال کا میچ کھیلنے میں مصروف تھیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ میرے اور میری دوست کے علاوہ اس بھرے ہوئے میدان میں کوئی اور عورت موجود نہیں تھی۔
اس میدان میں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود دونوں ٹیموں کے کھلاڑی اتنے جوش و جذبے سے مقابلہ کر رہے تھے جیسے وہ لیاری کے سہولیات سے عاری میدان میں نہیں بلکہ ماسکو کے لوزہنیکی سٹیڈیم میں میچ کھیل رہے ہوں۔لیاری کے بھیا باغ میں دو مقامی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جا رہا ہے
لیکن ایک حیران کن بات جو نظر آئی کہ لیاری میں ورلڈ کپ میچز دیکھنے کے لیے جتنا واضح جوش و جذبہ وہاں کے رہائشیوں میں تھا، اُس کے برعکس ویسا جذبہ مجھے اس بھرے ہوئے میدان میں نظر نہیں آیا۔ زیادہ تر تماشائی خاموشی سے، ساکت بیٹھ کر میچ دیکھ رہے تھے اور وہاں کوئی بینڈ باجا اور شور نہیں تھا۔ شاید وہ لوگ دو مقامی ٹیموں کے بجائے برازیل کے میچ کے بارے میں سوچ رہے تھے؟
پیر کو میں اپنی دوست کے ساتھ دوبارہ لیاری کے علاقے بغدادی گئی تاکہ برازیل کا میکسیکو کے خلاف ہونے والا میچ وہاں دیکھ سکوں اور اس دن وہاں کا ماحول ہی کچھ اور تھا۔ ہر گلی محلے میں لوگوں نے میچ کے لیے سکرین لگائی ہوئی تھیں، خواہ وہ کوئی کریانے کی دکان ہو یا چائے کا ڈھابا۔
روس میں ورلڈ کپ کے دوران میں نے دیکھا تھا کہ وہاں فیفا کی جانب سے ایک مقررہ مقام پر باضابطہ طور پر سکرین کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اسے ‘فین فیسٹ’ کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر وہ شائقین میچ دیکھ سکتے ہیں جن کے پاس سٹیڈیم کے ٹکٹ نہیں ہوتے۔فیفا نے ورلڈ کپ میں مختلف شہروں میں بغیر ٹکٹ والے شائقین کے لیے فین فیسٹ کے مقامات قائم کیے جہاں مقابلے بڑی سکرین پر دکھائے جاتے تھے
لیاری میں بھی ایک سے زائد مقامات پر ایسی سکرینز لگی ہوئی تھیں جیسے مومباسا سٹریٹ، علی محمد محلہ وغیرہ۔ لیکن روس کے برعکس، یہ اہتمام فیفا یا کسی سرکاری باڈی یا کسی نجی ادارے نے نہیں بلکے اس علاقے کے رہائشیوں نے اپنے شوق اور برازیل سے محبت کی خاطر اپنی مدد آپ کے تحت کیا تھا۔
کچھ لوگوں نے ہمیں اپنے گھروں کی چھت پر بلایا تاکہ ہم اونچائی سے دیکھ سکیں کے کتنی بڑی تعداد میں لوگ وہاں پر میچ دیکھنے کے لیے جمع ہیں۔لیاری کے رہائشی عظیم بلوچ کے گھر کی چھت جہاں سے علی محمد محلے میں لگائی جانے والی سکرین دیکھی جا سکتی ہے
شام سات بجے میچ شروع ہونے کے بعد سکرینز پر میچ دیکھنے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تھے اور برازیل کی جرسی پہنے غور سے میچ دیکھ رہے تھے۔ وہاں پر برازیل کے سب سے اہم کھلاڑی نیمار کے بے تحاشا مداح تھے اور ان کے کسی بھی ’پاس‘ پر بلوچی زبان میں ‘جیے نیمار’ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔
نیمار نے جب برازیل کے لیے میکسیکو کے خلاف گول سکور کیا تو وہاں پر تو جیسے ایک ہنگامہ مچ گیا۔ نوجوانوں نے زور زور سے نعرے لگائے ، ڈھول بجائے اور آتش بازی کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سب سٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھ رہے ہیں۔
لیاری میں میچ دیکھنے کے تجربے میں ایک چیز جس نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ تھا وہاں کی کم عمر لڑکیوں کا فٹبال دیکھنے میں دلچسپی رکھنا۔ ان میں سے کئی نے نیمار کے نام والی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
جب میں نے ان سے برازیل کے معروف کھلاڑی مارسیلو کے بارے میں سوال کیا تو ایک دس سالہ لڑکی نے مجھے بتایا کہ وہ زخمی ہونے کی وجہ سے میچ نہیں کھیل رہا۔ اس سے مجھے ظاہر ہوا کہ ان بچیوں کو واقعی فٹبال میں کتنی دلچسپی ہے۔کم عمر لڑکیوں میں بھی برازیل سب سے مقبول ٹیم تھی
برازیل کی جیت کے بعد علی محمد محلے میں زور و شور سے جشن منایا جا رہا تھا اور ایک چیز جو میں نے وہاں دیکھی کہ ذکری برادری کی ایک مسجد پر برازیل کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر میں نے سوچا کہ جس کسی نے بھی کہا تھا کہ فٹبال ایک مذہب ہے، اس نے غلط نہیں کہا تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور میں بہت خوش قست ہوں کہ میں نے روس میں ورلڈ کپ کے مقابلے دیکھے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو مزہ مجھے لیاری میں میچ دیکھتے ہوئے آیا، وہ احساس ناقابل بیان ہے۔
یہ تھی لیاری کی بہترین عکاسی۔برازیل کے فارورڈ نیمار لیاری بھر میں شائقین کے سب سے مقبول کھلاڑی ہیں
وجیہہ نقوی کراچی کی رہائشی اور فٹبال کی شائق ہیں۔