ان دنوں بلوچستان میں سیاسی گہما گہمی زوروں پر ہے لیکن بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں اس بار ذرا مختلف نظر آرہی ہے اس بار کلہاڑی کو کہاں کتنی مضبوطی سے استعمال کرنا ہے اسکے لئے سردار اختر مینگل اور انکی جماعت نے بڑا کام کیا ہے اور اپنی حکمت عملی بھی سے تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔
دو ہزار آٹھ کے بائیکاٹ کے بعد سردار اختر مینگل جب اسیری ختم کرکے رہا ہوئے تو زیادہ عرصہ بیرون ملک علاج میں گزارا جسکی وجہ سے میری رائے میں بلوچستان نیشنل پارٹی انتخابات کیلئے مکمل تیار نہ تھی اور رہی سہی کسر ایسے نکلی جو نشستیں بی این پی جیت سکتی تھی تو بقول سردار اختر مینگل کے انکا مینڈیٹ چرا کر ان سے وہ نشستیں بھی چھین لی گئیں ۔
انہوں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا لیکن جمہوری انداز میں ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرتے رہے لیکن جو درست فیصلہ انہوں نے کیا وہ خاموشی کیساتھ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی تیاری کا مرحلہ تھا بجائے کسی جذباتی فیصلے یا اقدام کے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے ۔
انہوں نے گزشتہ دور میں دو ایم پی ایز رکھنے والی اپنی جماعت کا ایک سینیٹر پاکستان کے ایوان بالا میں بھجوایا معاملہ یہیں نہیں رک جاتا۔ چھ ماہ پہلے تک مبصرین اس بات پر بحث کرتے تھے کہ بی این پی مینگل کوئٹہ شہر، رخشان ڈویژن اور جھالاوان تک محدود ہے مکران بالخصوص کیچ میں انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکتی لیکن سردار اختر مینگل کے حالیہ فیصلوں نے مبصرین کوبہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔
کیونکہ حالیہ انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کیساتھ ساتھ اتحاد وں کی تشکیل کیلئے جو اقدام انہوں نے اٹھائے ہیں تو جن نشستوں پر بی این پی کی کامیابی کو دیوانے کا خواب سمجھا جاتا تھا اب ان نشستوں پر بی این پی بہتر مقابلے کی پوزیشن میں ہے ۔
حالیہ حلقہ بندیوں میں بھی انکے ووٹ بینک کے علاقے زیادہ متاثر نہیں ہوئے گو کہ کوئٹہ شہر کا ایک حلقہ جسے وہ آسانی یا تھوڑی محنت سے جیت سکتے تھے وہ تھا پرانا پی بی فور اب اس میں کچھ مشکلات انکے امیدوار اختر حسین لانگو کے سامنے آسکتی ہیں لیکن بی این پی کے امیدوار اختر حسین پرامید ہیں کہ اگر منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوئے تو وہ کامیابی حاصل کرلینگے۔
ایسی ہی صورتحال بلوچستان کی آواز مانے جانے والے سابق سینیٹر ثناء اللہ بلوچ کی خاران میں ہے نوشکی میں بھی بی این پی بظاہر اپنی کامیابی کیلئے پر امید ہے یہاں تک کہ کوئٹہ کے بلوچ علاقوں والی نشستوں پر بھی بی این پی کو کامیابی مل سکتی ہے جہاں انکے پا س نئے اور پرانے ورکرز اور رہنماؤں کا ایک مکسچر ہے ۔ سیاسی طور پر انہوں نے انتہائی متحیر کن بولڈ فیصلے کئے ۔
آغا حسن اور احمد نواز کی نامزدگی اس بات کو ظاہر کررہی ہے کہ سردار اختر مینگل اپنے مشکل وقت کے ان کارکنوں کو نہیں بھولے۔ وہیں سریاب کی تیسری نشست جہاں ایک ہیوی ویٹ کی ضرورت تھی ،وہاں انہوں نے حاجی لشکری رئیسانی کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف اس علاقے میں بی این پی کا ووٹ حاصل کرسکتے ہیں ۔
بلکہ اپنا ذاتی اور قبائلی اثر و رسوخ استعمال کرکے بھی ووٹ حاصل کرسکتے ہیں تو یہاں بھی اگر کامیابی یقینی نہیں تو مقابلہ سخت ضرور ہے اور حاجی لشکری رئیسانی کی بی این پی میں شمولیت کے بعد ایک اور اچھا اقدام ہوا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اب صرف بلوچوں کی نمائندہ جماعت نہیں کہلاتی کیونکہ اب وہ صوبے میں بسنے والی تمام برادر اقوام کی جماعت بنتی جارہی ہے ۔
جہاں ملک ولی کاکڑ ،ساجد ترین ،ناصر عباس ہزارہ کیساتھ ساتھ اب حاجی اسماعیل گجر بھی موجود ہیں گوکہ وہ جس نشست پر امیدوار ہیں وہاں مقابلہ کافی سخت ہے ۔لیکن انکی اس جماعت میں آمد کیساتھ بی این پی میں صوبے کی تمام برادر اقوا م شامل ہوگئی ہیں۔ حاجی لشکری رئیسانی کی موجودگی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ نواب اسلم رئیسانی بھی بی این پی کے بہت قریب ہیں ۔
اگر وہ مستونگ کی اپنی نشست پر آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تو وہ اپنا وزن سردار اختر مینگل کی جماعت کے پلڑے میں ڈال سکتے ہیں ۔اب ذرا ایک نظر خضدار پرجہاں جے یو آئی ف ہمیشہ فائدے میں رہتی ہے اور جس جماعت کے ساتھ اتحاد کرتی ہے اس کی جیت یقینی بن جاتی ہے ۔
مکران جہاں سردار اختر مینگل کی جماعت کو مبصرین کمزور سمجھتے تھے اب وہیں آواران پنجگور کی نشست پر میری ذاتی رائے میں وہ مقابلہ کرینگے جیتنے والے امیدوار کا فیصلہ کرنا فی الحال مشکل ہے لیکن مقابلہ کرسکتے ہیں ۔گوادر کی صوبائی نشست پر بظاہر انکی جماعت اچھی پوزیشن میں ہے اور اسی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے سردار اختر مینگل خود لسبیلہ گوادر قومی اسمبلی کے امیدوار بھی بنے ہیں ۔
لیکن کیچ میں واجہ جان محمد دشتی کو انتخابی میدان میں اترنے کیلئے قائل کرنے میں سردار اختر مینگل کو جو مشکلات ہوئی ہونگی ان سے وہ خود واقف ہونگے لیکن واجہ جان دشتی کے میدان میں آنے کے بعد کیچ کی سیاست بھی اپ سیٹ کرسکتی ہے اور جہاں بی این پی مینگل کو کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا تھا وہیں بی این پی کو کچھ نشستوں پرٹاپ تھری میں گنا جارہا ہے ۔
اسکی بڑی وجہ جان محمد دشتی صاحب کی ذاتی حیثیت ہے انکا کام، انکی خدمات اور انکا کردار ہے جسے میں بی این پی مینگل یا سردار اختر مینگل کی بڑی کامیابی ماننے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورتحال میں اگر بی این پی مینگل کو بہت نظر انداز بھی کروں تو اس جماعت کو پانچ نشستیں نہ ملنا میرے لئے حیران کن ہوگا۔ بظاہر وہ اس سے زیادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
خیر اگر ہر سیٹ پر بات کرینگے تو معاملہ طول پکڑتا چلا جائیگا بات کرتے ہیں کہ ماضی کہ دو انتخابات کے مقابلے میں بی این پی کیونکر مختلف نظر آرہی ہے اسکی وجوہات کیا ہیں اور آنے والے دنوں میں اسکے اثرات کیا ہونگے۔ میری ذاتی اور ناقص رائے میں سردار اختر مینگل اب ایک ایسے راستے پر چل نکلے ہیں جہاں بلوچستان کی وزارت اعلیٰ انکا ہدف نہیں ہے اس بات سے اختلاف کا حق ہر ذی شعور شخص رکھ سکتا ہے لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد جو صورتحال مجھے سمجھ میں آرہی ہے ۔
سردار اختر مینگل اس بار بند گلی میں نہیں جانا چاہتے اور میرا خیال ہے کہ یہ انکا درست فیصلہ ہے کیونکہ وہ اس وقت بیک وقت قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر امیدوار ہیں ایک خضدار کی قومی اسمبلی کی نشست جس پر انہوں نے جے یو آئی ف سے اتحاد کرکے تقریباًاپنی کامیابی یقینی بنالی ہے اور دوسری نشست ہے لسبیلہ کم گوادر کی جہاں انہیں لسبیلہ کی دو اہم شخصیات جام کمال اور محمد اسلم بھوتانی سے مقابلہ کرنا ہے گو کہ لسبیلہ گوادر کی نشست انکے لئے آسان نہیں ہے ۔
لیکن ناممکن بھی نہیں یہی وہ نقطہ ہے جو مجھے یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ سردار اختر مینگل اس بار وایتی انداز سے ہٹ کر کھیل رہے ہیں لیکن اس انداز کو نہ میں دفاعی کہہ سکتا ہوں نہ جارحانہ، تو سردار اختر مینگل کیا چاہ رہے ہیں ؟
وہ ملک اور صوبے کے معروضی حالات سے بخوبی واقف ہیں میری ذاتی رائے میں سردار اختر مینگل بلوچستان میں ایک کمزور وزارت اعلیٰ لینے کے حق میں نہیں ہیں اگر ایک واضح اکثریت کیساتھ یا کسی ایسے اتحاد کی صورت میں جہاں انہیں اہم فیصلوں کا اختیار ہو تو وہ صوبے میں رک سکتے ہیں بصورت دیگر وہ بند گلی میں رہنے کے بجائے اس بار قومی سیاست میں پنجہ آزمائی کیلئے اس شہر کا رخ کرسکتے ہیں جہاں سے انہیں ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ اس شہر یعنی اسلام آباد نے بلوچستان کو اسکے حقوق نہیں دیئے۔
یہ اس وقت تک میری ذاتی رائے ہے اس فیصلے کا اختیار بلوچستان نیشنل پارٹی اسکی قیادت اور اسکے کارکنوں کو ہے ہم اس کے درست یا غلط ہونے پر رائے قائم کرسکتے ہیں ۔میری ذاتی رائے میں سردار اختر مینگل جو کچھ سوچ رہے ہیں وہ بالکل درست ہے اگر انہیں ایک مضبوط حکومت ملتی ہے تو صرف اسکی صوبے میں مضبوطی ضروری نہیں ہے اسکے وفاق سے اچھے مراسم بھی ضروری ہیں جس وقت سردار اختر مینگل کی جماعت ایک اچھی پوزیشن میں ہے ۔
وہاں صوبہ اچھی حالت میں نہیں ہے کیونکہ آنے والے پانچ سے دس سالوں میں کوئٹہ شہر میں پینے کو پانی نہیں ہوگا اور تو اور صوبے کا وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو یا کسی بھی جماعت سے ہو حلف لینے کے فوری بعد اسے پھر سے کشکول اٹھانا پڑیگا کیونکہ صوبے کو چلانے کیلئے پیسے ہیں ہی نہیں ۔ اور اگر تعلیم اور صحت پر کچھ نہیں کرسکتے تو پیسوں کو بچانے کیلئے یہ جو تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی لگائی گئی ہے اسے واپس لے لیں تاکہ یہ پرانی ڈگر پر چلتے رہیں۔
ایمرجنسی کے نام پر جاری ہونے والے پیسے بلوچستان کی زمین پر نظر نہیں آتے۔ حالیہ بی این پی مینگل نے جس منشور کا اعلان کیا ہے اس میں بلوچستان کے اہم مسائل کے حل کی یقین دھانی کروائی ہے میری دعا ہے کہ بی این پی مینگل اس منشور پر مکمل عملدرآمد کرے۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں انتخابی نشان کلہاڑی ہے تو اس صوبے میں بہتری لانے کیلئے اس کلہاڑی کا تیز ہونا اور درست جگہ پر استعمال کرنا بھی ضروری ہے کم از کم گورننس اور کرپشن جیسی بیماریوں کے معاملے پر کلہاڑی کا استعمال نہ کیا گیا تو زیادتی ہوگی اور اسکی معافی ہوگی یا نہیں ،اسکا اختیار بلوچستان کی عوام کے پاس ہوگا ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی دو ہزار اٹھارہ کا انتخاب اور کلہاڑی کا استعمال
وقتِ اشاعت : July 10 – 2018