سینٹ پیٹرز برگ: فٹبال ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل آج فرانس اور بیلجیئم کے درمیان کھیلا جائے گا۔
ورلڈ کپ فیورٹس میں شامل فرانس کی نگاہیں فائنل فور کے بجائے سیدھی فائنل پر مرکوز ہوچکی ہیں،اس کی نگاہیں1998 کے بعد ایک اور میگا ٹرافی حاصل کرنے پر مرکوز ہیں،20 برس قبل فرنچ کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھیری ہنری خود اب اس کیخلاف منصوبہ بندی میں مصروف ہیں،وہ بیلجیئم کے کوچنگ اسٹاف کا حصہ اور کوچ روبرٹو مارٹینز کے دست راست ہیں۔
بیلجیئم کی ٹیم فرانسیسی دفاع میں شگاف کیلیے ان کی جانب ہی دیکھ رہی ہے، البتہ فرنچ اسٹرائیکر اولیور گیراؤڈ کو یقین ہے کہ عظیم ہیرو ان کے خلاف ہی ہتھیار بنیں گے، انھوں نے کہا کہ یہ سوچنا بھی عجیب ہے کہ وہ ہمارے خلاف کوئی منصوبہ بنائیں گے، ہنری فرنچ فٹبال کے عظیم کھلاڑی ہیں، انھوں نے ٹیم کو بہت کچھ دیا اور ہم سب ان کی بہت عزت کرتے ہیں،مگر اس کے ساتھ ان کی حریف کیمپ میں موجودگی کے بارے میں بہت زیادہ سوچ بچار بھی نہیں کررہے، ہماری توجہ صرف مقابلے پر ہی مرکوز ہے۔
ادھر بیلجیئم کی ٹیم کے پاس انتہائی باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں،ان میں کیون ڈی برین، ایڈین ہیزارڈ اور رومیلو لوکاکو بھی شامل ہیں، یہ واحد ٹیم ہے جو روس میں اپنے تمام میچز جیت چکی اور اس کی جانب سے ہی سب سے زیادہ 14 گولز ہوئے ہیں۔
نیمار کی برازیلین ٹیم کوزیر کرنے کے بعد ویسے ہی بیلجیئم کے حوصلے کافی بلند اور وہ اب فرنچ رکاوٹ عبور کرکے پہلی بار فائنل کھیلنے کیلیے پُراعتماد ہیں، اس کا انحصار ایڈین ہیزارڈ پر زیادہ ہوگا جنھیں کوچ مارٹینز، ونسینٹ کومپینی کی انجری سے واپسی کے باوجود کپتان کا آرم بینڈ پہناچکے ہیں۔
اگرچہ ہیزارڈ بیلجیئم میں 2 فٹبال پلیئرز کے گھر پیدا ہوئے مگر انھوں نے کھیل کا آغاز ہمسایہ ملک فرانس میں کیا جہاں پر انھیں 16 برس کی عمر میں قومی ٹیم میں جگہ کا مضبوط امیدوار بھی قرار دیا جانے لگا تھا، مگر پھر ان کی خدمات چیلسی نے ریکارڈ معاوضے پر حاصل کیں،انھوں نے انگلینڈ میں 6 سیزن گزارے اور اب بیلجیئم کی نیشنل سائیڈ کا حصہ ہیں۔
اس کے مقابلے میں ڈیڈائر ڈیس چیمپس کی فرنچ سائیڈ کو انتونیو گریزمین اور کیلیان ایمباپے جیسے بہترین ٹیلنٹ کی خدمات میسر ہیں، اگرچہ اسے گروپ میچز میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر ارجنٹائن اوریوروگوئے پر کامیابی کے بعد اعتماد بھی آسمان کو چھو رہا ہے۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں سیمی فائنل کا آغاز فرانس فیورٹ کے طور پر کرے گا، اسے یقین ہے کہ نوجوان اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی سے وہ یورو 2016 کے بعد کسی بڑے ایونٹ کے فائنل میں لازمی جگہ بنالے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پانچویں مرتبہ سیمی فائنلزکی چاروں ٹیموں کا تعلق یورپ سے ہی ہے۔