تربت : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما،معروف بلوچ اسکالراورNA 271میں قومی اسمبلی کے امیدوارجان محمددشتی نے کہاہے کہ بلوچستان اوربلوچ معاشرت تباہی اوربربادی کی طرف گامزن ہے ،یہاں بلوچ کولاوارث سمجھاجارہاہے ، الیکشن میں خریدوفروخت کاکاروبارجاری ہے ، لوگوں کی ضمیرکی قیمت لگائی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ سیاست قومی فکرکی رہنمائی کرتی ہے ، اگرکوئی حساس دل ودماغ رکھتاہے اوروہ دیکھتاہے کہ اس کی سرزمین اس کی قوم زوال کی جانب ،بدحالی کی جانب گامزن ہے،اسے فروخت کیاجارہاہے ،جنگ اورفتنوں میں الجھایاگیاہے آپ کب تک آنکھیں بندکرکے لاتعلق ہوکراس عمل کانظارہ کرتے رہیں گے۔
یہ بات انہوں نے بلوچ اسکالرزاورنوجوانوں کے ایک گروپ سے گفتگوکرتے ہوئے کہا،جان محمددشتی نے کہاکہ کب تک تماشائی بنے رہوگے۔ وہ شخص عالم ، دانا، مدبر،دانشوراورادیب قطعاًنہیں ہوسکتاجواپنی قوم اورخودکودھوکہ دے رہاہو ، جب ایک دانشوراورادیب اپنے قوم کے دکھ درداوراس کے خوشی وغم میں اس کے ساتھ نہیں ہوگاتوقوم کیو ں اسے اپنامانے،کیوں اسے اپنادانشوراورادیب کہے ،بلوچ تعلیم یافتہ اورغیرتعلیم یافتہ یہاںآکرہم سے حمایت کاعزم کررہے ہیں۔
حالانکہ ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں،ہم نے مال و وسائل اکھٹے نہیں کئے ، بلوچ جانتے ہیں ہم سرکاراورحکومت میں نہیں رہے ،میں اس بات کادعویدارنہیں کہ اقتدارمیںآکرتمام بیروزگاربلوچوں کوروزگاردوں گا،اورنہ میں دعویدارہوں کہ میں اس ہاتھ کوروک سکوں گاجوبلوچ پرظلم ڈھاتا ہے، انہوں نے کہاکہ ادب شعوری طورپرتخلیق کی جاتی ہے اسے لاشعوری اورخیالی طورپرتخلیق نہیں کیاجاتاہے ، ادب اورسیاست میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
جان محمددشتی نے کہاہے کہ اگردوہزارسال قبل بلوچ کوکوئی تکلیف پہنچی اورآج وہی تکلیف دوہزارسال بعداسے پہنچے تواس کی تورِشت اوردرد وہی ہوتی ہے اوراس درد کااظہارادب کہلاتاہے اوراس درد کومرہم فراہم کرنااورتیمارداری سیاست ہے ، اگربلوچ اپنانمائندہ منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتاہے اورجب وہ عوامی مفادات کے خلاف کام کرتاہے اورجب عوام اس پرتنقیدکرتے ہیں اسے اس عمل سے منع کرتے ہیں تویہ ایک سیاسی عمل بن جاتی ہے۔
، اس ردعمل کواگرلفظوں کاعملی جامہ پہنچایاجائے تووہ ادب کہلاتاہے ، اب اگرآپ کسی کے مہمان ہیں اوروہاں پرباہرسے کوئی آکرآپ کوبے عزت کرے اوراس پرآپ اپنے میزبان سے اس عمل پراحتجاج کریںیااپنی ناراضگی بیان کریں تو یہ بات کلچرکے زمرے میں آئیگی۔
انہوں نے کہاکہ سیاست قومی فکرکی رہنمائی کرتی ہے ، الیگزنڈرکون تھاوہ ایک فاتح کماندارتھااس کااستادارسطوایک فلاسفراورمفکراوراسٹیٹس مین تھا، جواہرلال نہروایک تاریخ نویس تھاوہ ہندوستان کاپہلاوزیراعظم تھا ،ماؤزے تنگ ایک سیاستدان اور ادیب تھاوہ چین کاحاکم اورسربراہ تھا۔
میں ان لوگوں کی مثالیں وضاحت کے لئے دے رہاہوں اس کا یہ مطلب نہیں میں اپناموازنہ ان سیاستدان اورسیاسی مفکرین وتاریخ دانوں سے کررہاہوں، رومنوں میں ایک شخص گزراہے جس کانام سسروتھا جوکہ ایک عالم، عظیم مقرراورروم کاسینیٹربھی رہاہے اوراس نے جنگوں میں بھی حصہ لیا، سائرس (کوروش) جو ایک دانشوراورملک کاسربراہ بھی تھا، پیغمبراسلام سیاسی مفکر،دانااورمدبرانسان تھا،اورآج تک ان کی تعلیم کی ترویج جاری ہے
بلوچستان تباہی کی جانب گامزن ہے ،جان محمد دشتی
وقتِ اشاعت : July 16 – 2018