بلوچستان میں قومی میڈیا کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے جس کے پس منظر میں تو شکایتوں کی لمبی فہرست ہے لیکن 13جولائی کو مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسے میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد قومی الیکٹرانک میڈیا کے مجموعی رویئے نے صوبے کی عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کردیا ۔
13 جولائی کو ہی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے لندن سے پاکستان آنا تھا ۔اس روز صبح ہی سے ایک ایک لمحے کی کوریج کی جارہی تھی لاہور کے بیشتر اہم مقامات پر رپورٹرز کھڑے ہوکر لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنے میں مصروف تھے۔
نواز شریف کی آمدسے کئی گھنٹے قبل مستونگ کا سانحہ بھی رونماء ہوا جس میں مجموعی طور پر 132 افراد شہید جبکہ 150 کے لگ بھگ زخمی ہوئے اس سانحے کی دلخراش ویڈیوز اور تصاویر سامنے آنا شروع ہوگئیں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج خان رئیسانی کی شہادت کی خبر بلوچستان کے طول و عرض میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی لیکن قومی میڈیا کے لیئے یہ خبر ایک معمولی خبر ہی رہی ۔
زخمی زندگی کی بازی ہارتے رہے لیکن قومی میڈیا کازیادہ تر توجہ لاہور میں مسلم لیگ(ن) کی ریلی ، گرفتاریوں اور نوازشریف کے طیارے کی آمد پر مرکوز رہا۔کوئٹہ اور مستونگ کے ہسپتال لاشوں اور زخمیوں سے بھرے پڑے تھے جبکہ ہسپتالوں کے باہر دھاڑیں مارتے لواحقین کے دل سوز مناظر سے ماحول سوگوار تھا لیکن قومی میڈیا نواز شریف اور ان کے صاحبزادی کی سفری سرگرمیاں دکھانے میں مصروف تھا۔
اس تمام صورتحال پر اپنے غم وغصے کا اظہار کرنے کے لیئے لوگوں نے سوشل میڈیا کا غیرمعمولی استعمال کیا جہاں قومی میڈیا سے بائیکاٹ کی ایک مہم چل پڑی ہے ۔بلوچستان کے لوگوں کی بڑی تعداد نے قومی میڈیا کو لاہوری میڈیا قرار دے کر اس امر پر گہرے رنج کا اظہارکیا کہ صوبے میں ہونے والی تاریخ کے سب سے بڑی ہلاکت خیز واقعے پر نواز شریف کی آمد اور لاہور میں ن لیگ کی ریلی کو ترجیح دی گئی ۔
جو نہ صرف قومی میڈیا کے محدود ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس روئیے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ہماری میڈیا کو جہاں سے اشتہارات اور بزنس ملے زیادہ توجہ بھی وہیں پر دی جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ پوچھتے رہے کہ بلوچستان کا دکھ اسکرین سے غائب کیوں ہے؟ لیکن کوئی جواب نہیں آیاتاہم اس دوران جو نتیجہ اخذ کیا گیا وہ یہ تھا کہ قومی یکجہتی کا درس دینے والے قو می میڈیا نے پنجاب کے دل لاہور میں گرفتاریوں اور بلوچستان کے بدقسمت علاقے مستونگ میں شہادتوں پر امتیازی رویہ اپناکردراصل قومی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچایاجس کا ازالہ شاید آسان نہ ہو۔
بلوچستان کے لوگوں کو ہمیشہ سے قومی میڈیا سے شکایات رہی ہیں کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے اکثر اضلاع میں بیشتر میڈیا ہاؤسز کے نمائندے تنخواہ اور سہولیات کے بغیر کام کرتے ہیں نہ ان کی کوئی تربیت کرائی جاتی ہے اور نہ ہی دور دراز علاقوں میں لوگوں کو درپیش مشکلات کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔
صوبے میں جاری شورش کے دوران ہزاروں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے اس سے کئی گنا زیادہ لوگ زندگی بھر کے لیئے اپاہج بن گئے ،کئی خواتین بیوہ اور بچے یتیم بن گئے لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرکے مہاجر بن گئے لیکن قومی میڈیا نے ان سنگین انسانی مسائل کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا جبکہ لاہور ، کراچی، اسلام آباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں اگر کوئی گدھا یا گھوڑا بھی کسی گٹر میں گرا تو اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر ناظرین تک پہنچایاگیا۔
قو می میڈیا کے اس امتیازی رویئے نے بین الاقوامی میڈیا کے لئے بلوچستان کو موضوع بنانے کا راستہ کھول دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے میں آج بھی لوگوں کی بڑی تعداد بی بی سی اردو، وائس آف امریکہ اور دیگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ سانحہ مستونگ کو مناسب کوریج نہ دینے پر ملک کے معروف نجی چینل جیو نیوز نے باقاعدہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگ لی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر ملک کے کچھ نامور صحافیوں نے بھی قومی میڈیا کے مجموعی امتیازی رویئے کو ہدف تنقید بنایا لیکن 13 جولائی کو اٹھنے والی غبار نے جہاں صوبے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا وہیں احساس محرومی کی گہری سوچ کوبھی جنم دیا جس کا اظہار بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے ۔
13 جولائی کو دہشت گردوں نے مستونگ میں خودکش دھماکہ کرکے ملکی سلامتی پر حملہ کیا جبکہ قومی میڈیا نے اس واقعے سے نظریں چرا کر مصیبت زدہ لوگوں کے جذبات اور احساسات پر کاری ضرب لگائی ۔جسم کے زخم تو بھر سکتے ہیں لیکن جذبات اور احساسات کے زخموں کا بھرنا شاید آسان نہ ہو۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی میڈیا اپنے کردار اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کاروبار ی مفادات، علاقائی وابستگی اور ریٹنگز بڑھانے کے معاملات کو قومی سانحات پر ترجیح نہ دے ورنہ پہلے سے موجود احساس محرومی اور ناراضگیوں میں اضافہ ہوتارہے گاجس کے منفی اثرات اس ملک پر پڑسکتے ہیں۔(ختم شد)