|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2018

نیشنل پارٹی 2013کی بہ نسبت 2018کے الیکشن میں زیادہ اچل کود کرتے دیکھائی نہیں دیتا،کسی بھی بڑے اور چھوٹے حلقے میں مرکزی قیادت کی جانب سے ہنوز کوئی جلسہ منعقد نہیں کیا جاسکا تاہم جو لوگ امیدوار ہیں وہ اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی معرکہ سر کرنے کی جتن کر رہے ہیں ۔

ماضی کی نسبت اس بار نیشنل پارٹی کے اکثر امیدورا کافی مالدار ہیں ، روکڑا دیکر ووٹ خریدنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ،نیشنل پارٹی نے اس بار زیادہ تر ان لوگوں کو ٹکٹ دے رکھا ہے جو گزشتہ پانچ سال میں وزیر مشیر اور کسی نہ کسی سرکاری عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔

کون نادان نہیں جانتا کہ اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے غریب سے غریب بندے کوبھی غربت کے کیٹگیری سے نکلنے میں رتی بھر وقت بھی نہیں لگتا ،اس لیئے دیگر امیر وکبیر امیدواروں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کیلئے نیشنل پارٹی کے امیداروں کا امیر بننا انتہائی ضرور ی ہو گیا تھا۔

ایسے حالات کامقابلہ کرنے کیلئے مڈل کلاس طبقے نے نظر یہ روشن خیالی، سیکولرز م ، کیمونزم ،نیشلزم ،ترقی پسندانہ سوچ ، جیسے کتابوں میں لکھے گئے فلاسفی کوایک طرف کر کے پانچ سال کی قلیل مدت میں اپر کلاس تک پہنچنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں اور اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔

کسی دور میں نیشنل پارٹی مکران کی سیاست کا بے تاج بادشاہ سمجھا جا تا تھا ،ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد سے لیکر 2013تک نیشنل پارٹی ( بی این ایم ، بی این وائی ایم اور اب نیشنل پارٹی ) مکران میں کسی اور پارٹی کو پر مارنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

90کی دہائی میں بننے والی بلوچستان نیشنل پارٹی نے1997کے الیکشن میں اپنی پوری قوت صرف کی تب جاکر آوارن سمیت مکران میں چند سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی بعد میں یہ جماعت بھی بعض ریشہ دوانیوں کا کا شکار بنی ، اب بی این پی کا پورا بوجھ سردار اختر مینگل کے کاندھوں پر ہے ،بی این پی سے ٹوٹے ہوئے لوگ کہیں نیشنل پارٹی اور کہیں بی این پی ( عوامی ) کے نام سے شخصیتوں میں بکھری ہوئی ہے۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ( بی این ایم ) بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی ) کے چند بکھرے پرزوں کوباہم پیوست کر کے 2003میں نیشنل پارٹی بنائی گئی ،نیشنل پارٹی کا سلوگن بنیادی طور پر سردار ،نواب مخالف ہے لیکن ڈاکٹر مالک بلوچ کی دریا دلی سے آہستہ آہستہ اس جماعت میں جھالاوان کے بڑے بڑے سردار اپنی سرداری سے تائب ہوکر شامل ہوتے گئے ، پہلی انٹری چیف آف جھا لا وان نواب ثنا اللہ زہری نے مارا تھا ۔

اس کے بعد غریب سرداروں کی لائن لگ گئی ،بد قسمتی سے چیف آف جھا لاوان نے بہت جلد نیشنل پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا لیکن جب تک نواب صاحب نیشنل پارٹی میں رہے تھے تب تک ان کے بیٹھک میں مڈل کلاس کامریڈوں کی قطار لگی ہوتی تھیں ،نواب کے بیٹھک میں نیشنلزم اور سیکولرزم پر بحث و مباحثہ تب تک جاری رہتا تھا تاوقتیکہ کہ ضیافت کا دسترخوان بچھ نہ جاتا ،اب یہ مت پوچھئے گا ،نواب ثنا اللہ زہری نے نیشنل پارٹی چھوڑی کیوں ؟۔

حالات کی سختی کی وجہ سے 2013 کے الیکشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی اپنا انتخابی مہم بہتر طریقے سے چلا نہ سکی جس کا نیشنل پارٹی نے بھر پور فائدہ اٹھا یا ،مکران ،جھالاوان سے سات سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی تاہم حکومت بنانے کیلئے اسکے پاس عددی برتری موجود نہیں تھی ، اس وقت مسلم لیگ (ن) پہلی ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت تھی لیکن نواز شریف نے کمال احسان جتا کر ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ،بعض لوگ اسے پوری بلوچ قوم پر احسان سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نیشنل پارٹی کا گڑھ سمجھا جانے والا مکران آہستہ آہستہ نیشنل پارٹی کے ہاتھ سے پھسلتا چلا گیا ،مکران کا وہ مڈل کلاس پڑھا لکھا طبقہ جو ہمیشہ سرداری نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ان کے پاس نیشنل پارٹی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ،اس طبقے کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس نیشنل پارٹی کے علاوہ کوئی متبال سیاسی پلیٹ فارم بھی نہیں ہے۔ 

اس طبقے نے نیشنل پارٹی کے مد مقابل بلوچستان عوامی محاذ (BAM) کے نام سے نئی جماعت قائم کر لی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نیشنل پارٹی اور بی این ایم کے بانی رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے جھالاوان میں نیشنل پارٹی سے منحرف دھڑے کو یکجا کر کے پرانے بی این ایم کودوبارہ سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے ،اب نیشنل پارٹی کو دیگر جماعتوں کے علاوہ بام کا بھی سامنا ہے۔

مڈل کلاس بلوچوں کی مرکزیت توڑنے کا برا راست ذمہ دار میرے نزدیک ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ہیں ،ان کی ناقص قیادت اور محدود سوچ کی وجہ سے نیشنل پارٹی آہستہ آہستہ بکھر تی جارہی ہے ،نیشنل پارٹی کو اگر ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کوپر ازسر نو غور کرنا پڑے گا ۔