بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔حالیہ الیکشن 2018 کے بعد ہمیشہ کی طرح بلوچستان بہت زیادہ اہمیت تو اختیار نہیں کررہا لیکن ملکی سیاست میں پھر بھی تبدیلی کی ہوا ضرور چل پڑی ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات ہونے کے باوجود بھی لوگوں نے ووٹ دئیے بلکہ خواتین کی بڑی تعداد نے ووٹ کاسٹ کی اور گھروں سے نکل کر دنیا کو حیران کر دیا۔
اس دفعہ مکران کی خواتین صوبے کے باقی علاقوں سے ایک قدم آگے رہیں جس میں پنجگور اور تربت کی خواتین نے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کا کریڈٹ بہت سارے سیاست دان لیتے رہے ہیں۔
میں جب پنجگور سے پی بی 43 سے کامیاب امیدوار اسد بلوچ سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے باالخصوص خواتین کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیااور ان کو بتایا کہ آپ کو اپنا ووٹ کا استعمال صرف اس لیے نہیں کرنا کہ ہم کامیاب ہوں بلکہ اس لیے کریں کہ ملک میں بہتری آئے، خوشحالی ہو، ترقی پروان چڑھے، امن و امان کی فضا قائم ہو اور آنے والی نسل کا مستقبل روشن ہو۔
باتیں تو خیر ہر سیاست دان میٹھی میٹھی ہی کرتا ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ بلوچستان کی عوام نے جو امید کی کرن لگائی ہوئی ہے یہ پوری ہوگی بھی کہ نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بلوچستان کی سیاسی صورتحال ہمیشہ سے مختلف رہی ہے ۔
عموماً وفاق کے لحاظ سے ہی بلوچستان کی حکومت مشروط ہوتی ہے جس کی مثال پیپلزپارٹی دور میں سردار اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بنے اور پھر مسلم لیگ ن کے دور میں پہلے عبدالمالک صاحب ،پھر سردار زہری کو یہ اعزاز ملا مگر بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دور حکومت کے بعد بلوچستان کی عوام جس قدر مایوس ہے ۔
شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو۔ الیکشن کے حوالے سے جب مختلف لوگوں کی رائے سامنے آئی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ صاحب خود اپنی کارکردگی سے خوش نہیں اور لوگوں کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ مجھ سے ناراضگی اپنی جگہ مگر پارٹی سے کیسی ناراضگی ،ووٹ پارٹی کو دیں۔
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر پارٹی کا لیڈر ہی اپنے لوگوں کی یا ووٹر کی خدمت نہ کرسکا تو پھر پارٹی کو ووٹ کس کام کا ۔ بد قسمتی سے بلوچستان کے مکران ڈویژن میں وسائل ویسے ہی کم ہیں اوپر سے ان وزیروں کی عدم دلچسپی بہت دکھ دیتا ہے کیوں کہ وہاں کے نوجوانوں کا زیادہ تر انحصار سرکاری نوکری پر ہی ہوتا ہے جبھی تومکران میں سی ایس ایس کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
الیکشن تو ہوگئے کوئی ناراض تو کوئی لیڈر بہت خوش ہے اور اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بلوچستان کی عوام جس نے الیکشن 2018 میں پہلے کے مقابلے میں تاریخی نتیجہ دیا ان کی امیدوں پر پانی پھیردیا جاتا ہے یا اس صوبے میں کوئی نئی امید کی کرن لے کر آتا ہے۔
امید کی نئی کرن۔۔۔
وقتِ اشاعت : August 4 – 2018