سترہ اگست کا دن کچھ زیادہ مصروف رہا۔ ایک طرف ملک میں وزیر اعظم کا انتخاب ہورہا تھا ،وہیں میں آنے والے نئے ٹی وی چینل کی نئی ٹیم کواپنے ڈائیریکٹر نیوز کی مدد سے انٹرویو کرکے حتمی شکل دے رہا تھا۔ ان انٹرویوز کے دوران ہمیں کچھ وقفے بھی ملے ان وقفوں کے دوران سیاست ،صحافت ،سماج سب کچھ عمران میر صاحب سے ڈسکس ہوتا رہا۔
ہمارا نیا آنے والا چینل آپ نیوزکب آئیگا کوئٹہ بیورو میں کتنے ٹیم ممبرز درکار ہونگے یہ سب کچھ شام تک چلتا رہا لیکن شام کو جب وزیر اعظم عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی تقریر کا وقت قریب آیا تو ہم گفتگو کیساتھ ساتھ تقریرسنتے ہوئے ایک دوسرے سے ان تقریروں پر اظہار خیال بھی کرتے رہے۔
عمران میر صاحب نے زبردست بات کی کہ عمران خان کو اب سوچنا ہوگا کہ اب وہ کنٹینر پر نہیں بلکہ فلور آف دی ہاؤس پر بات کررہے ہیں یہاں بولے گئے جملوں کا ریکارڈ ہوتا ہے نہ صرف یہ بلکہ انہیں کارکردگی دکھانی ہوگی جو اخلاقیات کا درس وہ دیتے آئے ہیں اب انہیں اس سیاسی اخلاق کا بھی مظاہرہ بھی کرنا ہوگا اور مخالفین کو اپنی کارکردگی سے خاموش کروانا ہوگا اور میری ذاتی رائے میں یہ بہت ضروری ہے ورنہ یہ قوم پھر وراثتی سیاست کی نظر ہوجائیگی۔
جو بھی کہیں فی الحال قومی سیاست پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اس تحریر کے قارئین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق بلوچستان سے ہے تو پھر لوٹ آتے ہیں اپنے پیارے بلوچستان کی طرف ۔
میری دلچسپی صرف سردار اخترمینگل کی تقریر میں تھی ابھی کچھ کام نمٹائے اور میر صاحب سے اجازت طلب کی بھاگا دوڑا گھر پہنچا کہ سردار اختر مینگل کی تقریر سن سکوں کیونکہ روز اول سے میں انکے انداز خطابت سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوں لیکن میری چھوٹی سی پری ’’ہانی‘‘ دودنوں سے گھرسے لاتعلقی پرناراض تھی ۔
پڑھتے ہوئے یہ مت سوچیئے گا کہ اکیلی ہانی ناراض ہے بلکہ ہانی کی ناراضگی ہماری اہلیہ کی ناراضگی کی بھی اطلاع فراہم کررہی تھی سو جیسے تیسے ہانی سے سیز فائر ہوا تو پھر دل مچلا کہ کہیں سردار اختر مینگل کی تقریر مل جائے تو دل کو سکون ملے گو کہ آج بلاول نے مجھے بہت متاثر کیا اور دعا کی کہ وہ صرف اپنے والد کی وجہ سے یا انکی چالوں سے وزیر اعظم نہ بنے ،اگر اسے وزیر اعظم بننا ہے تو بائیس سال کی جدوجہد کے بعدہی بنے تو بہتر ہے ۔
بصورت دیگر میں اسے وراثتی وزیر اعظم تو مان لونگا لیکن حقیقی وزیر اعظم نہیں مانوں گا۔ عمران خان سے بہت سے اختلاف کے باوجود انکے وزیر اعظم بننے کی ایک خوشی ضرور ہے کہ ملک کا اقتدار دو سیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش سے تو نکل آیا اورا ب اگر وہ اپنے وعدے وفا نہ کرسکے تو اس قوم کے پاس پھر موروثی سیاست کی طرف جانے کا جواز ہوگا اگر وہ ناکام ہوئے تو اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ اور گڈ گورننس دیوانے کا خواب ہی رہینگے۔
اس ساری سوچ بچار کے دوران بالآخر سردار اختر مینگل کی تقریر سوشل میڈیا کے جدید دور میں مل ہی گئی اور جیسا کہ پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں میں انکے انداز خطابت سے بہت ہی متاثر ہوں اور آج بھی متاثر ہی رہا اور مجھے یقین تھا زخموں اور وفاق کی بے اعتنائیوں سے چور بلوچستان کی سرزمین کا یہ باسی کچھ بھی کرلے ۔
اپنی سرزمین سے لاتعلق ہوکر وزیر اعظم کی کامیابی کی خوشیوں میں بحیثیت اتحادی شریک ہونے کے بجائے اپنے اتحادی عمران خان کو وہ تمام باتیں یاد دلوائے گا جنکی وجہ سے وہ عمران خان کو منتخب کروانے کیلئے مددگار ہوا۔
سونے پہ سہاگہ وہ تو ابتداء میں ہی وزیر اعظم اور معزز پارلیمان کو لاپتہ افراد کی فہرست کا بار گراں سپرد کر آئے جس نے واضح کردیا کہ سردار اختر مینگل بجائے حکومت کے اتحادی ہونے کے اور چند سال اسلاآباد کے پر فضاء موسم میں گزارنے کیلئے نہیں آئے بلکہ وہ بلوچستان کا حقیقی چہرہ وفاق کو دکھانے آئے ہیں۔
بہت سے مسائل کا حل سردار ختر مینگل کے چھ نکات کیساتھ ساتھ آج کی تقریرمیں بھی بلوچستان کی بہتری اور ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا روڈ مپ دے آئے ہیں اگر سردار اختر مینگل یوں ہی گرجتے برستے رہے تو ایک سابق سینیٹر کی بات یاد آتی ہے کہ ہم سو روپے مانگنے جاتے ہیں ۔
اگر وفاق احسان کرکے پچاس روپے دے دے تو اسی پر شکر گزر کرتے ہیں لیکن جس انداز میں آج سردار اختر مینگل نے حق نمائندگی ادا کیا ۔اور ایک خوشی یہ بھی ہے کہ میرے حلقہ احباب اور حلقہ انتخاب سے منتخب آزاد امیدوار اسلم بھوتانی نے سالار ساحل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ حق نمائندگی بھی ادا کردیا ہے اور ملک بھر پر واضح کردیا ہے اگر سی پیک کی ترقی گوادر اور بلوچستان کیلئے نہیں تو کسی کیلئے نہیں ہوگی اور ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے سردار اختر مینگل کے مؤقف کی تائید بھی کردی ۔
اب کچھ امید ہوچلی ہے کہ اس بار قومی اسمبلی کے اس ایوان میں بلوچستان کی آواز گونجے گی اور گرجے گی بھی اور عمران خان صاحب یاد رکھیں اقتدار نہ تو سردار اختر مینگل کی منزل ہے نہ اسلم بھوتانی کا شوق، اگر ان دو افراد کی آواز کو بھی اس ایوان نے نہ سنا اور اس صوبے کے حل طلب مسائل پر توجہ نہ دی تو پھر کل اس ملک کے کسی شخص کو بلوچستان سے معافی کی ضرورت نہیں۔
سب سے آخر میں پھر کہتا ہوں پاکستان ٹیلی ویژن جتنا عمران خان کا ہے اتناہی سردار اخترمینگل کا بھی ہونا چاہیئے، انکی تقریر کو بیچ میں کاٹنے سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ انکی بات کو سن کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا ۔
بصورت دیگر یہ ایوان اور اقتدار تبدیلی والوں کو مبارک، اس سے میرا چرواہے کا بلوچستان نہیں بدلنا، جناب وزیر اعظم عمران خان آپ کو نیا پاکستان بنانے کیلئے ریکوڈک ،گوادر، سیندک سمیت میرے نیلے ساحل، میرے پہاڑ چاہئیے تو میری سرزمین کی آواز کو سردار اختر مینگل اور اسلم بھوتانی کی آواز میں سنو، ممکن ہے اسے سننے سے پاکستان نیا بھی ہوجائے اور ایک بھی ہوجائے ۔
جناب وزیر اعظم سردار اختر اور اسلم بھوتانی کی سنیں، نیا پاکستان بنے گا، بھی ایک بھی ہوگا
وقتِ اشاعت : August 19 – 2018