|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2018

کوئٹہ کی وادی کا خیال آتے ہی ذہن میں انار،سیب،خوبانی کے باغات کا تصور آتا ہے،ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی سنساہٹ کا احساس ہوتا ہے،دیو ہیکل پہاڑوں کی گود میں سوئے اس شہر کو سات رنگوں میں گْندھے بلوچستان کا سب سے خوبصورت رنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ کوئٹہ کے یہ خوبصورت رنگ ماند پڑتے جا رہے ہیں۔

پچھلے دنوں محکمہ موسمیات نے ملک بھر کے خشک سالی سے متاثرہ شہروں کا الرٹ جاری کرتے ہوئے معمول سے کم بارشیں ہونے کے باعث بلوچستان کے 9 شہروں کوئٹہ،دالبندین،نوکنڈی،گوادر،پنجگور،پسنی،اورماڑہ،تربت،جیونی کو شدید متاثرہ شہر قرار دیا تھا۔

بلوچستان میں خشک سالی کا ہونا کوئی نئی بات تونہیں مگر خشک سالی سے متاثرہ شہروں کی فہرست میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر کوئٹہ کا نام شامل ہونا ضرور ایک اچھنبے کی بات ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئٹہ شہر میں پانی کی یومیہ طلب 5 کروڑ گیلن ہے جب کہ کوئٹہ کے باسیوں کومحض 3 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے جس سے کوئٹہ کو روزانہ دو کروڑگیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے جب کہ دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گرتے ہوئے چودہ سو فٹ اور کہیں پر ہزار فٹ تک پہنچ چکی ہے۔

واسا حکام کے مطابق ان کے 400 ٹیوب ویلز میں سے 100 سے زائد خراب ہیں جب کہ اسی طرح پی ایچ ای کے بھی سو سے زائد ٹیوب ویلز ناکارہ ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ میں پانی کی اسی صورتحال کے پیچھے چھپے حقائق جاننے کے لیے نکلے تو یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پندرہ سالوں میں شہر میں آبادی کا ایک بہت بڑا دباؤ سامنے آیا ہے جس نے زندگی کے دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ شہر میں پانی کے ذخائر کی کمی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

صرف ڈھائی لاکھ کی آبادی کے لیے بنایا گیا یہ شہر اس وقت 30 لاکھ سے زائد انسانوں کا بوجھ اْٹھا رہا ہے،اور اس نحیف وادی کے کندھوں پر آبادی کے بوجھ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف صوبائی دارالحکومت ہوتے ہوئے بھی ماضی کی حکومتوں نے کوئٹہ میں پانی کی قلت اور مستقبل میں اس سے وابستہ تباہ کاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی پلاننگ نہیں کی،شہر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزارسے زائد غیر قانونی ٹیوب ویلز موجود ہیں اورغیر قانونی ڈرلنگ کا عفریت بھی اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ بنا ہواہے۔

کوئٹہ میں پانی کی قلت کو پورا کرنے کے حوالے سے سب سے اہم منصوبہ منگی ڈیم بھی روایتی سست روی کا شکار ہے،اس منصوبے سے صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کو روزانہ 8.1ملین گیلن صاف پانی فراہم کیا جانا ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی صوبائی حکومت نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد ہی سب سے پہلے شہر میں واٹر ایمرجنسی تو نافذ کر دی ہے مگر اس پر عملدرآمد ہوتا کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ دوسری طرف ٹیوب ویلز کی مسلسل یلغار اورغیر قانونی ڈرلنگ نے شہر کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہونے سے متعدد علاقوں کی زمینوں میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں،جو آنے والی تباہ کاری کا پیش خیمہ ہے ،زیر زمین پانی کے سفاکانہ استعمال کے بعد زمین کی اندرونی قدرتی تہہ مستقل بنیادوں پر کھوکھلی ہوتی جارہی ہے جس سے کوئٹہ شہر سالانہ 10 سینٹی میٹر دھنستا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے جیالوجسٹ ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں ٹیوب ویلز کی بہتات اور غیر قانونی ڈرلنگ سے ہونے والے ڈیزاسٹر کا آغاز ہو چکا ہے،کوئٹہ کے متعدد علاقوں میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو چکی ہیں جو آبادیوں کے عین درمیان سے گزر رہی ہیں اور اس مسئلے پر جلد قابونہ پایا گیا تو یہ کوئٹہ کے باسیوں کی اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت کو ختم کرنے کے لیے سب کی نظریں منگی ڈیم پر جمی ہوئی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ منگی ڈیم بننے سے بھی اس مسئلے کو محض کچھ وقت کے لیے ہی روکا جا سکتا ہے،ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ منگی ڈیم کی گنجائش اتنی نہیں کہ وہ تیس لاکھ لوگوں کی آبی ضروریات کو پورا کر سکے،کوئٹہ کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں غازہ بند ڈیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔

غازہ بند ڈیم کے حوالے سے وہاں کے لوگوں کے کچھ تحفظات ہیں جن کو حکومت سنجیدہ ہو تو حل بھی کر سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کوئٹہ میں واٹر ایمر جنسی لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک عوام میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا نہ کی جائے۔

لوگوں کے نزدیک پانی کے بحران کے خاتمے کے لیے صرف ٹیوب ویلز ہی مسئلے کا حل ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ ان ٹیوب ویلز کی بدولت ہی کوئٹہ دن بدن تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے،رہی سہی کسر ان اداروں نے پوری کر دی ہے جنہوں نے کوئٹہ میں پانی کے بحران اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانا تھا وہ خود اس مسئلے کی اہم وجہ بنے ہوئے ہیں۔

لوگوں کی مشکلات کو دیکھ کر ان کو ٹیوب ویلز لگا کر دینا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔ کوئٹہ کی اس نئی افتاد کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر نہیں لایا گیا،اور اس حوالے سے کوئی موثر آبی پالیسی مرتب نہیں کی گئی تو آئندہ چند برسوں میں وادی کوئٹہ کسی صحرا کا منظر پیش کرنے لگے گا۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے سالوں بعد ملک میں نئے ڈیمز کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے دیا مر بھاشا ڈیم کے حوالے سے گہری دلچسپی دکھائی ہے اوراس ڈیم کے اعلان نے جہاں پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔

ایسے وقت میں مرکزی حکومت کو بلوچستان میں بھی ایسے پراجیکٹس کی طرف سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا جس سے بلوچستان کی بقا جڑی ہوئی ہے،گوادر اور کوئٹہ کا خشک سالی سے متاثرہ شہروں میں شمار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مرکز کی جانب سے اب تک بلوچستان سے جڑے مسائل کے حوالے سے روایتی بے حسی کار فرما ہے،مرکزی حکومت بلوچستان میں چھوٹے ڈیمز کی ضرورت کو ناگزیر سمجھ کر اس حوالے سے جلد کوئی موثر حکمت عملی ترتیب دے کر بلوچستان کو ریگستان بننے سے بچا سکتی ہے۔