اسلام آباد: سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کو پاکستان اسٹیٹ آئل کے حکام نے بتایا کہ پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ پر ویسلز کے حسا ب سے انفراسٹرکچر موجود نہیں جس کی وجہ سے جہاز زیادہ دیرتک پورٹ پر کھڑے رہتے ہیں۔
پی ایس او50 سے 60 ہزار جہاز منگواتا ہے ،پورٹ قاسم پر صرف 15 ہزار جہاز کی گنجائش ہے،ڈیموریجز سے ہونے والے نقصان کی ادائیگی کمپنی خود داد کرتی ہے،ڈیموریجز کو محفوظ کرنے کیلئے پی ایس او 90ہزار میں سے 30ہزار پائپ لائنوں جبکہ باقی اسٹوریج میں ڈالے گی،ساٹھ فیصد سٹوریج صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر محسن عزیز بیگ کی زیر صدارت منعقد ا، اجلاس میں سینیٹر سردارا عظم موسی خیل، سینیٹر تاج محمد آفریدی، سینیٹر بہرہ مند خان تنگی، سینیٹر قرۃ العین مری، سینیٹر فدامحمد،سینیٹر صلاح الدین ترمذی اورسینیٹر جہانزیب جمال دینی نے شرکت کی۔کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے پی ایس او حکام نے بتایا کہ 2 لاکھ سے زائد کے اسٹوریج کیلئے پروپوزل تیار ہے۔
جنوری سے اگست2018تک 19.66فیصد ڈیموریجز ہوئیں ہیں،ملک میں بائیس نئی کمپنیوں کا لائنسز دی گئیں ہیں کس کی وجہ سے ملک کی ڈیمانڈ بڑھی ہے،ڈیموریجز میں کمی کیلئے فوری طور پر بندرگاہوں پرجہازوں کے حساب سے صلاحیت انفراسٹرکچر کو ترقی دینی ہوگی اور پائپ لائن کے نظام کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہیں۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی محسن عزیز نے کہا کہ ڈیموریجز کی وجہ سے ہونے والی مالی نقصانات کا ازالہ کون کرتا ہے؟ یہ نقصانات ملکی خزانے سے ادا کی جاتی ہے یا صارفین پر اس کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔
پی ایس او دوسری کمپنیوں کے ساتھ تعاون کرکے چھوٹی ویسلز لانے کی بجائے بڑے جہازوں کو لائیں۔چیئرپرسن اوگراعظمی عادل نے کمیٹی کو بتایا کہ اوگرا کمپنیوں کو تین سال کیلئے کنسٹرکشن لائنس دیتی ہے ،اس دوران متعلقہ کمپنی کی سٹوریج کیپیسٹی کو چیک کیا جاتا ہے، اس کے بعد ان کو مارکیٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے،ٹینک لاریز کے معیار کا تعین کرنا اورگرا کا کام نہیں یہ نیشنل ہائی وے اتھارتی کا کام ہے۔
کمیٹی میں آئل ٹینکرز مالکان کے نمائندوں نے کہا کہ آئل ٹینکرز کیلئے کیو نظام کو برقرار رکھا جائے، پی ایس او بلا وجہ گاڑیوں میں نقص نکال رہی ہے،اس سے ٹینکرز مالکان اور ڈرائیوز پریشانی میں مبتلا ہے،ہماری گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں جبکہ اپنے منظور نظر لوگوں کی گاڑیاں دس دس ٹرپ لگاتی ہیں۔
اوگرا کی پالیساں نان پروفیشنل لوگ بناتے ہیں۔ڈی جی لاجسٹک پی ایس او نے بتایا کہ قانون کے مطابق عمل کیا جائے تو2008 سے پہلی کی گاڑیاں کو چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے،اگرا نے ستمبر2019 تک گاڑیوں کی اسٹینڈرڈ کو اپ گریڈ کرنے کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے، احمد پور شرقیہ کے واقعے سے پہلے پی ایس او نے گاڑیوں کی اسٹینڈرڈ کے حوالے سے سفارشات جمع کرائی تھی، کیو سسٹم کو ختم نہیں جارہا۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس ،بلوچستان میں ایل پی جی پلانٹ کے بارے میں اوگرا سے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب
وقتِ اشاعت : September 14 – 2018