یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا کہ عمران خان کو وزیراعظم بنائے جانا تھا اور انہیں بنا دیا گیا ’’ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے ‘‘ ذی شعوراور اہل ایمان بخوبی جانتے ہیں کہ ایٹمی تنصیبات کو سنبھالنے کے لئے نہ صرف ایک کثیر افرادی قوت کی ضرورت ہے بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم مالیات بھی ناگزیر ہے جبکہ ان تمام ترجیحات کو ایک امن کے سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہذاجب بیل ایک سینگ سے زمین کو تھام سکتا ہے تو ایک کالا باغ ڈیم ملکی مالیات کو کیوں نہیں؟
اس لیے موجودہ حالات میں اصل کھیل مہاجرین کا نہیں بلکہ ڈیم کا ہے لیکن ڈیم تنازعے کو پش پشت ڈالنے کیلئے افغان مہاجرین کا شوشہ چھوڑدیا گیا ہے مقتدرہ نے پشتون وزیراعظم کے کاندھے کو بہر طورپر احسن استعمال کیا ہے بالفرض اگر اپوزیشن میں بیٹھے پشتون‘ ڈیم کی مخالفت کریں تو سندھی بلوچ قوم پرست ان کے ہمنوا بننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ بلوچستان اور سندھ میں کم از کم80 لاکھ (غیر رجسٹرڈ ) افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ کا اجراء ان اقوام کی زیست اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے ۔
اس لحاظ سے افغان اپوزیشن رہنماؤں کی عمران کی حمایت اور سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کی مخالفت ملک کے اندر تینوں قوم پرست اقوام کی رہنماؤں کے درمیان دیوار برلن ثابت ہوگی ۔یہ کارڈ خوبصورتی کے ساتھ اس لئے کھیلا گیا کہ افغان مہاجرین کے معاملے میں پشتون قوم پرست ( اسفندیار اور محمود) نہ چاہتے ہوئے بھی نیازی کی حمایت پر مجبورہونگے جبکہ اس پس منظر میں پشتون قوم پرستوں کو درپیش حقیقی مسئلہ نگاہوں سے اوجھل ہوجائے گا۔
بد قسمتی یہ ہے کہ پشتون جدید قوم پرستوں کی سیاسی تربیت پشتون قومی اور ثقافتی سوال کے برعکس بلوچ اور سندھی اقوام کی معاشی مخالفت کے تناظر میں ہوئی ہے اس لیے عام پشتون سیاسی ورکر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے بجائے افغان مہاجرین کے مسئلہ پر سندھی اور بلوچ سیاسی اکابرین اور دانشوروں سے سیاسی کج بحثی میں الجھنے کی زیادہ توانائی رکھتے ہیں ۔
اس سیاسی الجھاؤ میں سندھی ‘ پشتون اور بلوچ اقوام کی نسبت عمران خان زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ عمران کو یہ جس نے بھی مشورہ دیا ہے مدبرانہ مشورہ دیا ہے لیکن اس کارڈ کو کھیلتے ہوئے عمران خان نے جن عالمی قوانین کی بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے وہ بہت ناقص اور کمزور ہیں مہاجرین کو شناختی کارڈکے اجراء کے معاملے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ جوافغان مہاجرین اس ملک میں پیدا ہوئے ان کو شناختی کارڈ جاری کیے جائیں دراصل یہ نظریہ ابن خلدون کی شہر یت کے قانون سے مستعار لی گئی ہے ۔
اس وقت مہذب عالمی دنیا میں اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے لیکن ابن خلدون نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص چوری چھپکے یا سینہ زوری کے ساتھ کسی ملک میں چھپتا پھرے اور چوریاں ‘ ڈھاکہ زنی ‘ قتل غارت اور دیگر غیر قانونی حرکات و کارروائیوں میں ملوث رہے اورریاست ان کو بیس سال بعد یا بچے پیدا کرنے کے بعد شناختی کارڈ جاری فرما دیں۔
ابن خلدون کا کلمہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص ‘ قبیلہ یا خاندان 120سال (یعنی 60-60دو نسلوں ) تک کسی ملک یا علاقے میں رہے اس دوران وہ شخص ‘ قبیلہ یا خاندان اس علاقے یا اس قوم کی عادت و اطوار ‘ رسم اور روایات کو اختیار کرے اور روحانی اور ذہنی طورپر خود کو اس قوم سے اس طرح تک منسوب و مربوط کرے کہ وہ نسلی ‘ مادی ‘ روحانی اور معاشی طورپراس قوم کو جز لاینفک رہے ۔
ان کلمات کے تناظر میں اگر افغآن مہاجرین خود کو روحانی ‘ ذہنی ‘ جسمانی ‘ ثقافتی اور مالیاتی طورپر افغان کے بجائے پاکستانی تسلیم کرتے ہیں تو وزیراعظم عمران کے بات کی بادل نخواستہ تائید کرنی پڑے گی مگر اگر نہیں اپنی معاشی مفادات کے علاوہ جب بھی موقع مل جاتا ہے وہ پاکستان کے جھنڈے کو کتوں کے گلے میں باندھ دیتے ہیں اور اپنے میلے کچیلے افغانی جوتوں کے ساتھ اسے روندھتے رہتے ہیں تو ہمیں سمجھ لینی چائیے کہ وزیراعظم ملک کی کوئی خدمت کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور مقتدرہ کی ایماء پر کالا باغ ڈیم کے نظریے کو تقویت دینے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں جس کے مضمرات طویل المدت دورانیے میں مثبت ثابت نہیں ہونگے ۔
حالانکہ کالا باغ ڈیم بلوچستان کا بلواسطہ کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے بلوچ قوم پرست قیادت پشتون اور سندھی اقوام کی خوش نودی کے لئے اس مسئلے پر ان کی حمایت کرتی رہی ہے مگر اس کے برعکس گوادر‘ سی پیک اور بلوچ مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر سندھی اور پشتون قیادت نے بلوچ کی کوئی خاطرخواہ حمایت نہیں کی اس کی سب سے بڑی مثال پونم رہی ہے ۔
جب پونم کی قیادت سردار عطاء اللہ مینگل کے پاس رہی تو سردار صاحب مستعدی کے ساتھ افغانستان میں نجیب حکومت کے گرانے اور 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے دوران خود پشتون قیادت سے بھی زیادہ سرگرم رہے لیکن جب پونم کی قیادت محمود اچکزئی کے ہاتھ آگئی اور2003ء میں بلوچستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے تو پونم اپنی موت آپ مر گئی اگر ہم آج پشتون قوم کو مسائل کی گرداب میں دیکھتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ پشتون قیادت کی غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے جو قومی سوال کے برعکس ہمیشہ معاشی مفادات کے تابع رہی ہے ۔
اور اس پس منظر میں بلوچ قیادت 1946ء سے پشتون قیادت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے مگر پشتون قیادت خطے اور قومی سوال کے دور رس نتائج کے بجائے وقتی مسائل اور الجھن کا شکار رہی اس کی واضح مثال افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ ہے۔ حالانکہ اس وقت افغان مہاجرین کے معاملے میں بلوچ اور سندھی عوام سے زیادہ وہ پشتون متاثر ہیں جو ڈیورنڈ لائن کے جنوبی خطے میں رہائش پذیر ہیں لیکن پشتون قیادت ان کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے کیونکہ ان حقیقی مسائل سے ’’ سیاسی ہوباشی‘‘ ممکن نہیں ۔
جبکہ موجودہ پشتون کمزور قیادت کے لئے پشتون قوم کے اندر موجود مسائل کو اجاگر کرکے ان کا حل تلاش کرنے سے زیادہ بلوچ اور سندھی اقوام سے تنازعات زیادہ متاثر کن اور پر کشش ہیں اس پر پشتون قیادت زیادہ دکانداری چمکا سکتی ہے ۔
افغان مہاجرین کے متعلق میپ اور دیگر جماعتوں کے دلیل منطقی اعتبار سے بہت کمزور ہیں ایک دلیل ہے کہ پشتون اپنے آبائی وطن میں آباد ہیں یہ بات برٹش بلوچستان میں شامل چند کلو میٹر ارضیات پر مشتمل کچھ علاقوں کے لئے درست ہو سکتی ہے لیکن گوادر اور اسلام آباد اور کراچی ‘ حیدرآباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں زبردستی آباد افغان مہاجرین کے لئے اہمیت کے حامل نہیں رہے گی پنجابی اور سندھی ان کی اس دلیل کو درخور اعتنا نہیں سمجھیں گے۔
دوسری دلیل ہے کہ افغان مہاجرین اب پاکستان میں جائیداد اور کاروبار کے مالک بن گئے ہیں اول تو یہ بات ہی غلط ہے کیونکہ وہ اقتدار اور کاروبار کے مالک نہیں بلکہ قابض بن بیٹھے ہیں جبکہ بطور مہاجر انکو ایک غیر وطن میں کاروبار اورملکیت کا اختیار اور اجازت ہی نہیں ہے اور یہ عمل سراسر غیر قانونی ہے اس سنگین جرم پر ان کو رعایت کا مستحق نہیں ٹھہرنا چائیے بلکہ جیل جانا چائیے کیونکہ انہوں نے نہ صرف ایک غیر ملک کے قانون کو توڑا ہے بلکہ پشتون اور اسلامی اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑائی ہیں ۔
اس بنیاد پر کسی مہذب اور تہذیب یافتہ گروہ کو ان کی سزا کے لئے بات کرنی چائیے نہ کہ ان کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی جواز فراہم کرکے خود کو غیر مہذب اور بد اخلاق ثابت کر نا ہے ۔ تیسری اوراہم بات یہ ہے کہ دنیا ان مہذب افراد کو پناہ کے طورپرشہریت عطا کرتی ہے جو عالمی قوانین کے تحت انسانی حقوق کے زمرے میں بے بس اور لاچار ہوں اور اخلاقی طورپر جائز حقوق اور عالمی قوانین کے تقاضوں کو پور اکر سکیں ۔
اس پس منظر میں خود پشتون قوم پرست اور ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدہ داروں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد واردات ‘ چوری ڈکیتی ‘ سمگلنگ ‘ قتل غارت اور منشیات فروشی کے پیچھے افغان مہاجرین کا ہاتھ ہے اب کوئی پشتون قوم پرست کس منطق سے یہ ثابت کر سکتاہے کہ دنیا میں کس ملک نے چور‘ ڈاکو ‘ سمگلر ‘ قاتل اور منشیات کے کاروبار میں منسلک افراد اور اپنے ملک کی آئین اور قانون توڑنے والوں کو شہریت دی ہے؟ اگر نہیں تو پاکستان میں کس بنیا دپر یہ بہانے تراشے جارہے ہیں ؟
آخری بات یہ ہے کہ جس ملک کے یہ مہاجرین باشندے ہیں وہ ملک (افغانستان) اپیلیں کرتا پھر رہا ہے کہ ان کے 80 لاکھ شہری ان کے ملک واپس بھیجواؤ تاکہ وہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکیں اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ افغان حکومت ان کو پرویزمشرف کی طرح انٹر پول سے گرفتار کر اکے طلب کررہی ہے اس لیے ہمیں شک ہے کہ 80 لاکھ افغان مسلمانوں کی زندگیوں کو افغان حکومت سے کوئی خطرہ ہے؟ بات یہ ہے کہ اگر افغان قوم پرست یہ سمجھتے ہیں کہ افغان پاکستان میں بھی اپنی سرزمین پر آباد ہیں تو ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ افغانستان سے لے کر لورالائی تک ان کی سرزمین ہے جب سرزمین ایک ہی ہے تو خوف کس بات کا؟ آخر وہ اپنی ہی سرزمین پر آباد ہونے جارہے ہیں پھر پشتون قوم پرستوں کو کیا اعتراض؟۔
افغان مہاجرین اور عالمی قوانین کی بیسا کھیاں
وقتِ اشاعت : October 5 – 2018