جام کمال خان کی واپسی،پی ڈی ایم تحریک سے مشروط

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

سال2013کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت سازی کیلئے رابطے شروع کیے اور مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے ایک وزرات کے عیوض نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کا اعلان کیا اور جمعیت علماء اسلام سے بھی رابطے جاری تھے کہ اچانک نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء عبدالرحیم زیارتوال بھی نواب ثناء اللہ زہری کے پاس پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بننے کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری نے خود کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم حاصل خان بزنجو اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اسلام آباد میں بیٹھے میاں نواز شریف کو منانے میں مصروف تھے انھیں حکومت سازی کی اطلاع ملی درحقیقت وہ بھی اس کھیل میں شامل تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا کہ بلوچستان کو ایک مری معاہدے کی ضرورت ہے اور معاہدہ کرکے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر کیا گیا جبکہ محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان تعینات ہوئے، اڑھائی سال کے دوران مسلم لیگی رہنماؤں کی اپنے اتحادیوں (نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی) سے سرد جنگ جاری رہی جبکہ مسلم لیگ (ق) اپنی ایک وزرات لیکر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی، اڑھائی سال بعد مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو و ہی خاموش اتحادی نواب ثناء اللہ زہری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے کیونکہ میر عبدالقدوس بزنجو بضد تھے کہ انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے جس سے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری انکار کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ جعفر مندوخیل سے وزارت لیکر ہی انھیں دیا جاسکتا ہے اس دوران حکومت کے اہم اتحادی نیشنل پارٹی اور پشتونخواء ملی عوامی پارٹی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔