رمضان کے متعلق یہ تصور بہت عام ہوچکا ہے کہ اس مہینے میں خوب خوب نفل نمازیں پڑھی جائیں، اسی طرح خوب خوب تلاوت قرآن کی جائے، اور باقی اوقات دعا، تسبیح، اور اذکار میں گزارے جائیں، اوراس کے علاوہ کچھ صدقہ وانفاق کردیا جائے۔ اور یہ سب اس لیے ہو کہ ہمارے کھاتے میں زیادہ سے زیادہ ثواب جمع ہوجائے اور ہمیں جنت کا پروانہ نصیب ہوجائے۔ یقیناًیہ روزہ کا انتہائی محدود اور ناقص تصور ہے۔ اس تصور کا نقص یہ ہے کہ اس کے ذریعہ بندہ پر اپنا ذاتی نفع اور ذاتی کامیابی کا پہلو غالب رہتا ہے۔
Posts By: ابوبکر دانش میروانی
مزدوروں کا عالمی دن مگر مزدور کام پر۔
یوم مئی، مزدوروں کا عالمی دن یا لیبر ڈے، ہم کیوں مناتے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی۔ ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16-16 گھنٹے کام لیا جاتا۔ تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی، اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔
نوجوانوں کی صلاحیتیں عظیم ترین ذخیرہ اور بہترین خزانہ ہیں،ان کی رہنمائی کے ذریعے ہمہ قسم کی کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، نوعمری کامرحلہ لڑکپن، صغرسنی اور ناتجربہ کاری سیکھنایہ ہے، اس مرحلے میں انسان کی قوتِ ادراک کمزور اور فکر و سوچ ناقص ہوتی ہے، صغر سنی میں انسان دوسروں سے متاثر اور مرعوب ہونے کا رسیا ہوتا ہے، بنا سمجھے دوسروں نقالی، مشابہت اور ادا کاری کرنے لگتا ہے، عام طور پر مشکل کام معمولی اشارے، بڑوں کی رہنمائی اور تھوڑی سی مدد سے ہی کرتا ہے۔جس وقت بھی نو عمر لڑکوں یا لڑکیوں کو کوئی بھی مثالی شخصیت نظر آئے تو اسی کی طرف میلان کر لیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ، نظامِ تعلیم، اور جہالت۔
تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس کا انتظام معاشرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم براہ راست اس ملک کے مسائل اور ضروریات پر منحصر ہوتا ہے۔ نظام تعلیم اور عمل تعلیم معاشرے کی ضروریات اور مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عمل تعلیم کا معاشرے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے کیوں کہ ہر فرد کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے اور معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے لئے تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں علم کا تعلق پیسے سے جوڑا جاتا ہے حالانکہ علم کا تعلق پیسے سے نہیں بلکہ علم تو روشنی ہوتی ہے۔
ہم برصغیر کے مسلمان ارتغرل سیریز کے خمارمیں مبتلا ہیں۔۔!!
یہ بات بھی سچ ہے سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی عظمت ورفعت کی ایک درخشندہ مثال ہے اورترک ڈرامہ ارتغرل میں اس کی بہترین اندازمیں منظرکشی کی گئی ہے۔لیکن کیاہم برصغیرکے مسلمانوں کے پاس مقامی مسلم سپہ سالاروں کی اس جیسی مثالیں موجودنہیں ہیں؟
قومیں مشکل وقتوں سے گھبراتی نہیں بلکہ یکجان ہو کر ان کا مقابلہ کرتی ہیں.
آج جب کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے دنیا بھر میں ہزاروں جانیں اس مہلک وائرس سے جا چکی ہیں ملک کے ملک لاک ڈاؤن ہیں، بڑی بڑی معیشتیں ڈوب چکی ہیں جن کو اپنے سپر پاور ہونے پر ناز تھا، سب کے سب مائیکرو اسکوپ سے نظر آنے والے معمولی سے وائرس کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس بیماری کا مقابلہ نہ کرسکے اس وائرس کا بدقسمتی سے ہمیں بھی سامنا ہے۔ ہماری تاریخ مشکلات کا مقابلہ کرکے سرخرو ہونے والوں میں لکھی گئی ہے، مورخ نے جب بھی ہماری تاریخ لکھی بہادری،حب الوطنی اور سخاوت کے قصوں کی داستان لکھی۔
لاک ڈاؤن اور پرائیویٹ اساتذہ کے مشکلات
ادارے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں سرکاری اداروں کے ساتھ نجی ادارے اور دیگر این جی اوز بھی کام کرتی ہیں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ جس سے بے روزگاری میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان کا نصف بوجھ پرائیویٹ اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو ان اداروں نے ہمیشہ ملکی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔