سال امسالین کتب بینی کے لحاظ سے اشتیاقیہ رہا ہے۔جب دنیا کورونا کے باعث گھروں تک محدود تھی، اب تو سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے،اب ہم بھی گھروں تک اتنے محدود نہیں رہے، ابتدائی دنوں سے مجھ سمیت میرے چند ہمسروں نے جو کتب بینی کا اشتیاق رکھتے ہیں اپنے اپنے آشیانوں میں محصور مطالعہ کتب سے محظوظ ہوتے رہے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا اگر میں اپنے لیے سال حال کو کتب بینی کا سال کہوں۔گھر میں مقید رہنے کا تجربہ مجھ سمیت چند کتابوں کے اشتیاقیوں کا مفید رہا ہے البتہ چند عوامل نے پر یشان بھی کر رکھا جس میں کورونا کی وبا تو سر فہرست ہے۔اچھی خبر سننے کو یہ ملتی ہے کہ کورونا کا عتاب کم ہوا ہے اور کیسسز میں کمی آرہی ہے۔
Posts By: احمد علی کورار
سی ایس ایس کے متعلق غلط فہمیاں
گزشتہ دنوں جب سی ایس ایس 2019 کا فائنل رزلٹ آیا تو سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک سی ایس ایس کولیفائیڈ وجوان زوہیب قریشی نوجوانوں کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ ہمت نہ ہاریں محنت جاری رکھیں ایک دن آپ ضرور کامیاب ہوں گے اس نوجون کا تعلق سندھ رورل سے ہے اور ایک میکنک کے بیٹے ہیں جنھوں نے بڑی تگ ودو اور ہمت کے بعد سی ایس ایس کے فائنل فیز کو بھی عبور کر لیا۔ بدقسمتی سے ہم سی ایس ایس کے حوالے اس قدر غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں ہماری دانست میں صرف یہ بات آتی ہے کہ یہ تو صرف ایلیٹ کلاس کے بچے کر سکتے ہیں جو اچھے اچھے اداروں میں پڑھتے ہیں۔
جس دم ہوئے روانہ تو روحِ رواں ہوئے۔
ہم نے جس راج میں آنکھ کھولی اس راج میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پہ پی ٹی وی کو پایا،ایک عمر تک اس سے وابستگی رہی،پی ٹی وی پہ شاندار ڈراموں کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کے مختلف شوز اور پروگرامز ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے جس میں سر فہرست نیلام گھر تھا۔ہم اسی نیلام گھر کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے اور دیکھتے دیکھتے یہ شو اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ اس شو کو دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے بے صبری سے انتظار کرتے۔اس شو میں مختلف قسم کے سیگمنٹس ہوتے، جنرل نالج اور شعر و شاعری کا سیگمنٹ شو کا سب سے منفرد سیگمنٹ ہوتا اور جو اس شو کی میزبانی کرتے تھے ان سے کون واقف نہیں۔
مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ
ان دنوں تاریخ کے متعلق کچھ کتب زیر مطالعہ ہیں بڑی تگ ودو کے بعد تاریخ کے حوالے سے sources Authenticملے ہیں ویسے تو تاریخ کے متعلق کتابوں کا انبار ہے لیکن صحیح معنوں میں لکھی گئی تاریخ کی چند ایک کتابیں درست تعین کا پتا دیتی ہیں۔ہمارے ہاں تو عرصے سے تاریخ کو رٹے رٹائے انداز میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ابھی تک ہمارے اذہان میں گول میز کانفرنس ماسوائے گول میز کے کچھ بھی نہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ کو Math کے ٹیبل کی طرح پڑھایا جاتا ہے جسے ہم وقتی طور پر ازبر کر لیتے ہیں تاریخ کی اصل essence کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں۔ یہ سلسلہ بڑے عرصے پر محیط ہے ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔تاسف یہ ہے کہ ہم آج تک صحیح معنوں میں مطالعہ پاکستان بھی نہیں پڑھ سکے، وہی نہرورپورٹ اور قائداعظم کے چودہ نکات رٹے ہوئے ہیں لیکن بہت کم طلبا جانتے ہیں حقیقت میں یہ نکات ہیں کیا؟
آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی بصیرت
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ مسلم لیڈرشپ جو بڑی visionary لیڈرشپ تھی ایک وفد(معروف شملہ وفد) کی صورت میں جب گورنر جنرل منٹو سے ملنے گئی تو اس نے گونر جنرل کو جو مطالبات پیش کیے وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور انہی مطالبات نے مسلمز آف انڈیا کے لیے سیاسی راہ ہموار کی۔ان Demands میں جو بھی نکات رکھے گئے آگے چل کر ان کو کسی حد تک برٹش نے تسلیم بھی کیا۔
برطانوی ہندوستان میں جمہوریت اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر ہوا کہ تقسیم بنگال کو لے کر کانگریس کی جانب سے سوَدیشی موومنٹ شروع ہو گئی۔ہر طرف گونج سنائی دینے لگی کہ یہ تو گاؤ ماتا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے rule and Divideکیا جا رہا ہے۔ کانگریس میں قیاس آرائیاں اور ابہام پیدا ہوا کہیں ہمارے خلاف سیاسی جماعتیں تو نہیں بنائی جا رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہندوستان کے مسلما نوں نے اپنا ایک سیاسی میکنیزم بنانے کے لیے جہد مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔مسلم لیگ کے قیام سے پہلے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں نے سیاسی پارٹیاں تشکیل دی تھیں جو کام بھی کر رہی تھیں۔
برطانوی ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ ایک طرف کرزن ہندوستان میں اصلاحات لانے کے لیے برٹش پارلیمنٹ کے ساتھ خط وکتابت کر رہا تھا سیکریٹری آف انڈین افیئرز (وزیرِ امور ہند) سے مسلسل رابطے میں تھا۔ دوسری طرف مسلم لیڈرشپ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی کوشاں تھی۔کرزن نے ہندوستان کے معاملات کو زیر غور لایا کیونکہ کرزن آتے ہی پورے معاملات کا ژرف بینی سے جائزہ لے چکا تھا۔بلاشبہ کرزن ایک visionary گورنر جنرل تھا۔1901 میں کرزن وزیر امور ہند کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وزیر امور ہند برٹش پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔یاد رکھیں سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈین افیئرز (وزیر امور ہند)کی بھی ایک کونسل ہوتی تھی۔ کونسل آف دی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ممبرز کی تعداد ہمیشہ 15 سے کم نہیں زیادہ ہوتی تھی اور یہ سارے برٹش ہوتے تھے وہ جنھوں نے بطور بیوروکریٹ یا آرمی آفیسرز ہندوستان میں serve کیا ہو۔
برطانوی ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ انڈیا میں 1892 کے ایکٹ کے مطابق جو الیکشن ہوا اس میں مختلف یونینز اور کونسلز کو Nominate کیا گیا۔ یعنی ٹریڈ یونینز،بار کونسلز،لینڈ لارڈ ایسوسی ایشنز یونیورسٹی سنڈیکیٹس میں الیکشن کیے گئے۔ان میں سے جو جیتا وہ امپیریل لیجسلیٹیو کے ممبرز بنے۔سر سید School of thought اسے ایک اور نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا بظاہر ہچکولے کھاتی جمہوریت تو پنپ رہی تھی لیکن مسلمانوں کا اس نوزائیدہ جمہوریت میں حصہ دورازدانست تھا۔ایک قابل غور بات بتاتا چلوں کہ 1892 کے اس کونسل ایکٹ میں making Law ہونی ہو تو ہوتا یہ تھا کہ ایگزیکٹو کونسل کے 5 ممبرز باقی ایڈیشنل ممبرز امپیریل لیجسلیٹیو کونسل برٹش آفیشلز بھی اور Elected بھی اکھٹے آجاتے تھے اور گورنر جنرل اس سیشن کی صدارت کرے گا اور سوال کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں لیکن ایسا لگے گا انڈیا کی اسمبلی نے ایکٹ یا بل پاس کر لیا۔
برطانوی ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز
اس حقیقت سے مفر نہیں تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں 1892 کا انڈین کو نسل ایکٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس ایکٹ میں پہلی مرتبہ جمہوریت کا آئیڈیا دیا گیا جو کسی حد تک سیاسی لحاظ سے ہندوستانیوں کو مطمئن کر سکا اور ہندوستان میں جمہوریت کا پیہہ خراماں خراماں چل پڑا۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہاں یہ بات واضح کر تا چلوں کہ آخر برطانیہ کو ان کونسل ایکٹس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانیوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔انہوں نے سیاسی حقوق کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ 1892 کا کونسل ایکٹ پہلا ایکٹ تھا جو ہندوستان میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بھی کونسل ایکٹس تھے 1861 کا کونسل ایکٹ 1831 کا کونسل ایکٹ، 1813 کا کونسل ایکٹ۔1857 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے ایکٹس متعارف کرتی تھی۔
پولیس کا رویہ
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ جس میں ایک خاتون جو خود کو کرنل کی بیوی بتا رہی ہے ایک پولیس والے کے ساتھ نازیبا طریقے سے محو کلام ہے اور یہ خاتون آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایک بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پولیس اس کے سامنے ہیچ ہو گئی۔خاتون جانے پہ بضد اور پولیس والا اسے روکنے پہ بضد۔تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ گتھی سلجھ ہی نہ پائی۔اس میں کوئی مغالطہ نہیں غلطی سراسر اس خاتون کی تھی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے درپے تھی یا قانون اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتاتھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پہ خاتون کی ایسی درگت ہوئی جس سے جتنا ہو سکا دشنام طرازی اور لغو گوئی کا مظاہرہ کرتا رہا اور پولیس کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی جانے لگی اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔خاتون کے اس نازیبا رویے پہ نا چاہتے ہوئے میں نے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول کہہ دئیے کیونکہ اس فورس میں بھلے انسان بھی ہیں۔