ابتدا میں کورونا نے جب چین میں پنجے گاڑے تو ہم دیسی لوگ ٹھٹھا کر نے لگے کم بخت چائینز حرام کھاتے ہیں اس وجہ سے اس مرض کا شکار ہوئے ہیں ہمارے تو گماں میں بھی نہ تھا کہ یہ ان دیکھا وائرس سبک رفتاری سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور بڑا سم قاتل ثابت ہو گا۔قیاسات و شبہات کا عنصر تو انسانی فطرت کا حصہ ہے،ہماری دانست کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتی اور نہ ہی تسلیم کرتی ہے۔پہلے تو ہم نے کورونا کو بدیسی بیماری تصور کرنے لگے ہمارا اس سے کا ہے کا تعلق؟ہم سے کیا پلے باندھنا،جن کے ہاں تخلیق ہوئی ہے انہی کے گلے پڑے گی۔
Posts By: احمد علی کورار
یہ قسمت کی خوبی نہیں
یہ زندگی کی پہلی عید گزری جو گزشتہ تمام عیدوں سے مختلف تھی اور ایسے موقع پر آئی جب دنیا کورونا جیسی عفریت سے نبردآزما ہے۔جس نے پورے نظام زندگی کو ہیچ کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی تہوار اس جذبے سے نہیں منایا جا رہا جس طرح عام زندگی میں منایا جاتا تھا۔دنیااب اسی کوشش میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح نظام زندگی کو معمول پر لائے۔کبھی کبھی مثبت اشارے بھی ملتے ہیں کبھی کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ کورونا کم بخت کبھی معدوم نہیں ہونے والا لہذا اس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ابھی میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ کب کورونا سے نجات پائیں گے اور کب زندگی معمول پر آئے گی۔
*ظلم کی آخری حد، کیا اب بھی باقی ہے؟
چند دن پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ہسپتال میں دل سوز اور جاں فرسا واقعہ پیش آیا۔سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔اچانک نا معلوم حملہ آوروں نے ہسپتال پر فائرنگ شروع کر دی، نومولود بچے،بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔
منیر مانک-سندھ کا منٹو
چند دن پہلے یعنی 11 مئی کو اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا جنم دن تھا۔پائے کے لکھاریوں نے منٹو کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ان کے بارے میں خوب قلم فرسائی کی۔جب اتنے سارے مضامین دیکھے تو میں نے چپ سادھ لی۔ویسے بھی مجھ جیسا نو ساختہ لکھاری اتنے بڑے ادیب پر نوک ِقلم سے کتراتا ہے۔لیکن آج بیٹھے بیٹھے ایک جسارت کرلی منٹو نہ سہی سندھی منٹو پہ لکھنے کا تہیہ کر لیا۔
اللہ والے
گزشتہ روز میں بھٹو صاحب کی سندھی میں تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایک فقیر کا واقعہ بتا رہے تھے کہ تخلیق پاکستان سے قبل لاڑکانہ سے ہم ٹرین کے ذریعے بمبئی جاتے تھے اس وقت لوگ جمعہ کے دن خیرات کا اہتمام کرتے تھے، ہم بھی اسی روز خیرات کرتے تھے۔ ایک فقیر اسی روز ہمارے ہاں خیرات کے لیے آتا تھا ایک دن اس فقیر نے مجھ سے کہا آج ٹرین لاڑکانہ سے بمبئی نہیں جائے گی، میں اسے اپنی روحانی طاقت سے جانے نہیں دونگا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا اور اپنے والد سے کہا کہ فقیر کہہ رہا ہے میں ٹرین کو جانے نہیں دونگا۔
علامہ صاحب،فیسبکی نوجوان اور میڈیکل سائنس کی تکرار
یہ تو ہمارے فیس بکی نوجوانوں کی خارج العقلی ہے کہ وہ ہمہ وقت علامہ صاحب کی باتوں کا ٹھٹھا کرتے ہیں لیکن ایک اور طبقہ ہے جو علامہ صاحب کو مشاہیر علم ودانش گردانتا ہے۔ان کو علامہ کی فہم و فراست سے کوئی مفر نہیں کیونکہ علامہ صاحب اپنی دا نشوری سے دقیق سے دقیق مسائل کا حل ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اب یہ ان کی کوتاہ نظری ہے کاہلی ہے کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔علامہ صاحب گفتار کے دھنی ہیں۔ علامہ کو باتیں جھاڑتے وقت دنیا کے کسی بھی مشاہیر علم ودانش سے خوف نہیں ہوتا لیکن انھیں فیس بکی نوجوانوں کا خوف طاری ہوتا ہے کہ میری اس اہم بات کا پھر کل سوشل میڈیا پہ مذاق نہ بنایا جائے۔وہ بعض اوقات طیش میں آکر ان نوجوانوں کو ایسے ایسے استعارات سے جوڑتے ہیں مگر نوجوانوں کا اس پر کیااثر ہونا! یہ فیسبکی نوجوان کہاں سدھرنے والے ہیں۔
جناب! کچھ مختلف لکھیے،بہت ہو گیا!
یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اخبارات میں ادارتی صفحات اس کی جان ہوتے ہیں لیکن اگر وہاں مختلف خیالات ونظریات کے بجائے ایک ہی موضوع کو مختلف عنوان دے کر شائع کیا گیا ہو تو پڑھنے کا مزہ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک اخبار میری نظر سے گزری کسی بھی اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنا میں فرض عین سمجھتا ہوں،شائع شدہ کالمز پہ نظر پڑی مختلف عنوان موضوع سب کا ایک۔اب بھلا کوئی کیوں اپنا وقت برباد کرے گا ایسے مضامین پڑھ کر اور اخبار میں بھی بڑے کروفر سے ان کالمز کو شائع کیا گیا، کیا ہمارے پاس سیاسی باتیں لکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔یہ حال صرف اس اخبار کا نہیں جو میرے ہاتھ لگی تھی ما سوائے چند کے سب کا یہی حال ہے۔
عرفان خان کی اوور ایکٹنگ۔
شکیسپئر نے سیون ایجز آف مین میں زندگی کی بہترین تصویر کشی کی ہے گویا ایسا لگتا ہو زندگی ایک کتاب کی مانند ہو جو مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ہر باب میں ندرت الفاظ کا ذخیرہ ہو صفحوں پہ مختلف رنگوں کے ساتھ بہترین تصویر کاری اور منظر کشی کی گئی ہو تاکہ جاذب نظر لگے اور پڑھنے والا اس پر اپنی غائرانہ نظر جمائے رکھے۔لیکن تاسف یہ ہے کہ اتنی خوبصورت کتاب کو قاری پڑھنے کے بعد کسی دن ایک کونے میں رکھ دیتا ہے پھر یہ کتاب دیمک کی نظر ہو جاتی ہے۔
توسیع نہیں،لاک ڈاؤن کو موثر کریں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معاشی مداوا کیے بغیر لاک ڈاؤن قید خانہ سے بدتر ہے لیکن اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں،دنیا میں جن جن ممالک نے کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکا ہے جہاں صورتحال مزید بگڑنے کے بجائے بہتری کی طرف گئی وہاں کسی میڈیسن یا ویکسین کے ذریعے اسے روکا نہیں گیا بلکہ Effective لاک ڈاؤن کے ذریعے اسے قابوکر نے کی کوشش کی گئی۔چین کی مثال دیکھ لیں ابتدا میں کرونا نے یہاں سے سر اٹھایا تھا لیکن عوام کے تعاون اور حکومت کی متفقہ لائحہ عمل کام کر گیا اور وبا سے دو دوہاتھ کر لیے۔بنیادی نکتہ یہاں غوروخوض کا یہ ہے کہ عوامی شعور کی جھلک کار فرما نظر آتی ہے۔
کرونا،عوامی رویے،علما کرام کی بصیرت اور ریاستی فیصلے
جس ملک میں انسان سازی کے بجائے میٹرو سازی اور اورینج سازی پہ اکتفا کیا جاتا ہو اس ملک میں حکومت 20 نکاتی ایجنڈا(ایس او پیز) پیش کر کے بری الزمہ ہو جائے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر لیا اور ساتھ میں لوگوں سے عمل کرنے کی بھی توقع رکھے، بہرے کے کانوں میں سر گوشیاں کرنے کے مترادف ہے اور یہاں یہ قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ریاست ہمیشہ مذہبی معاملات میں اپنا صائب فیصلہ پیش کر نے میں کیوں نا کام رہی ہے۔ایسے کٹھن معاملات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے لیکن اگر قیادت خود ایسے فیصلے صادر فر مائے جس سے گنجلک سی صورت حال پیدا ہو تو عوام الناس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔